بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام ایک ماہ کی چھٹی پر جائے تو تن خواہ کا حق دار کون ہے؟


سوال

 اگر امام بتا کر نہ جائے اور مہینے بعد آئے تو اس صورت میں تن خواہ شرعاً کسے ملے گی?

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد انتظامیہ امام و مؤذن سے طے کر لے کہ سالانہ کتنے یوم کی چھٹی مع وظیفہ کرنے کی اجازت ہوگی، اور اس سے زائد چھٹی کرنے کی صورت میں وظیفہ میں سے منہا کیا جائے گا،  پس معاہدے  کے مطابق استحقاقی چھٹی کے ایام کی تنخواہ کے امام و مؤذن حق دار ہوں گے، اور ان کے متبادل کو تنخواہ مقررہ امام یا مؤذن  کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے نہیں دی جائے گی، البتہ مقررہ استحقاقی چھٹی کے ایام سے زائد  دنوں کی چھٹی کرنے کی صورت میں ان ایام کے وظیفہ کے وہ حق دار نہ ہوں گے۔ باقی امام کو چاہیے  کہ چھٹی کی اطلاع انتظامیہ کو  کرکے جائے؛ تاکہ متباد ل کا بندوبست کیا جاسکے۔

اگر ازروئے معاہدہ امام نے استحقاق سے زیادہ بغیر اطلاع چھٹی کی ہو اور انتظامیہ چاہے تو ان کی تن خواہ کاٹ سکتی ہے، نیز جس شخص نے ایک ماہ نمازیں پڑھائی ہوں وہ مشاہرے کا مستحق ہوگا۔

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’لیکن شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ اپنے معاملہ میں جس قدر امام کی چھٹی بلاتنخواہ اور جس قدر مع تنخواہ چاہیں، رضامندی سے طے کرلیں، کسی خاص بات پر مجبور نہیں کیا‘‘۔ (فتاویٰ محمودیہ ۲۳ / ۱۸۶ ، ط: میرٹھ)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں