بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

المیزان انویسٹمنٹ کا حکم


سوال

 کیا ’’المیزان انویسٹمنٹ‘‘  (جو کہ  میزان بینک کا ایک ذیلی ادارہ ہے)  جو شریعہ کمپلائنٹ منافع دیتا ہے، ہر مہینہ سٹاک مارکیٹ کے حساب سے،  ان کے پاس میں اپنی رقم رکھ کر منافع حاصل کر سکتا ہوں؟ آیا جو منافع آئے گا وہ سود سے آئے گا یا جائز منافع کہلائے گا؟ ان کا نمائندہ تو کہتا ہے کہ یہ انویسٹمنٹ شرعی اصولوں کے مطابق ہے  کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ اسلامی میوچل فنڈز کے طریقہ کار کا خلاصہ یہ ہے:
انویسٹر بطور مؤکل کے اپنی رقم فنڈز والوں کو پیش کرتا ہے،  فنڈز والے انویسٹر کی رقم اور اس کی ضروریات کے مطابق مختلف شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ کی طرف اس کی راہ نمائی کرتے ہیں،  فنڈز والے اس کی رقم کو بطور وکیل کے کل پانچ مدات میں لگاتے ہیں:
۱:-اسٹاک ایکسچینج
۲:-اسلامی بینکوں کے منافع بخش اکاؤنٹس
۳:-گورنمنٹ کے صکوک
۴:-پرائیویٹ کمپنیوں کے صکوک
۵:-سونا اور چاندی کی مارکیٹ
اس خدمت کے عوض یہ ادارے فیس وصول کرتے ہیں۔ (بحوالہ فتوی نمبر: ۸۱۴۷، جاری شدہ از دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، مؤرخہ :۱۳-۰۴-۱۴۳۸ھ،۲۰۱۷-۰۱-۱۲ء )
ان اداروں میں سرمایہ کاری کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اسلامی بینکو ں کے منافع بخش اکاؤنٹس، اور صکوک میں سرمایہ کاری کرنادرست نہیں، اس لیے کہ اس میں ایسے طریقوں اور حیلوں کو استعمال کیا جاتا ہے جن کو اسلامی کہنا یا سود سے پاک کہنا درست نہیں۔

اور سونا چاندی کی خرید و فروخت میں چوں کہ عوضین پر مجلسِ عقد میں قبضہ ضروری ہے، اس شرط کا لحاظ رکھنا انویسٹمنٹ کی صورت میں مشکل ہے، اگر بیعِ صرف کی شرائط کا مکمل خیال رکھا جائے تو اس کے قواعد کے مطابق اس کی بیع کا حکم ہوگا۔
البتہ پہلی مد جس میں کہ یہ ادارہ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرکے شیئرز کی خرید و فروخت کرتا ہے، اس میں کاروبار کرنے کے لیے شیئرز کے کاروبار کے سلسلے میں جو شرائط بیان کی جاتی ہیں ان کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ان شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1-  جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو۔

2- اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

3- کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہو، سودی کاروبار یا ممنوعہ چیزوں کا کاروبار نہ ہو۔
4- کمپنی کی غالب آمدنی حلال ہو۔
5-  جب تک مشتری کے پاس شیئرز کا قبضہ نہ آئے تب تک اس کوآگے نہ بیچے۔ اور موجودہ زمانے کے قبضہ کے لیے ضروری ہے کہ سی ڈی سی کے اکاؤنٹس میں شیئرز مشتری کے نام منتقل ہو جائیں۔
6-  شیئرز کی شارٹ سیل (یعنی مشتری کی ملکیت میں شیئر آنے سے پہلے آگے بیچنا) اور فارورڈ سیل ( یعنی بیع کومستقبل کے زمانے کی طرف نسبت کرنا) نہ کی جائے۔
7- اس کمپنی کے شیئرز کی مارکیٹ ویلیو مائع اثاثوں جیسے نقد کی قیمت سے زیادہ ہو۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ میوچل فنڈز والے ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوں توسائل کے لیے اس ادارے کے شیئرز کی خرید وفروخت والے حصہ میں سرمایہ کاری کر نے کی گنجائش ہوسکتی ہے، مگر فی زمانہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کے کاروبار کے لیے بیان کردہ شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، شرائط کے ساتھ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کو جائز بتانے والے فتاویٰ کو صرف بیانِ جواز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، شرائط کے لحاظ کی کوئی ضمانت یا یقین دہانی نہیں ہوتی، اس لیے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کے جواز کا فتویٰ مشکل ہورہا ہے۔
لہٰذا اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز کی خرید و فروخت سے وابستہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاملات میں درج بالا شرائط کی موجودگی کی مکمل یقین دہانی حاصل کریں یا پھر اسٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے علیحدہ رہیں:
’’فنقول من حکم المبیع إذا کان منقولاً أن لایجوز بیعه قبل القبض إلى أن قال: وأما إذا تصرف فیه مع بائعه فإن باعه منه لم یجز بیعه أصلاً قبل القبض‘‘. (الفتاوی الهندیة: ج:۳، ص:۱۳، الفصل الثالث في معرفة المبیع والثمن والتصرف)
’’قال العلامة ابن عابدین: وهو لایصح به القبض ... وقید بالقبض؛ لأن العقد في ذاته صحیح غیر أنه لایجب علی المشتری دفع الثمن لعدم القبض‘‘.  (ردالمحتار: ج:۴، ص:۴۸، مطلب: اشتری دارًا ماجورةً لایطالب بالثمن قبل قبضها)
’’آکل الربا وکاسب الحرام أهدی إلیه أو أضافه، وغالب ماله حرام لایقبل ولایأکل ما لم یخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن کان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هدیته والأکل منها‘‘. (الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثاني عشر: في الهدایا والضیافات، قدیم زکریا دیوبند، ج:۵، ص:۳۴۳، جدید زکریا دیوبند، ج:۵،ص:۳۹۷)
’’غالب مال المهدي إن کان حلالاً لا بأس بقبول هدیته وأکل ماله ما لم یتعین أنه من حرام، وإن کان غالب ماله الحرام لایقبلها ولایأکل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه‘‘. (البزازیة علی هامش الهندیة، الکراهیة، الفصل الرابع: في الهدیة والمیراث، قدیم زکریا دیوبند، ج:۶، ص:۳۶۰، جدید زکریا دیوبند، ج:۳،ص:۲۰۳)
’’وفي عیون المسائل: رجل أهدی إلى إنسان أو أضافه إن کان غالب ماله من حرام لاینبغي أن یقبل ویأکل من طعامه ما لم یخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن کان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن یقبل الهدیة ویأکل ما لم یتبین له أن ذلك من الحرام‘‘. (الفتاوی التاتارخانیة، الکراهیة، الفصل السابع عشر: في الهدایا والضیافات، مکتبه زکریا دیوبند، ج:۱۸، ص:۱۷۵، رقم:۲۸۴۰۵، مجمع الأنهر، کتاب الکراهیة، فصل في الکسب، ج:۴، ص:۱۸۶، دارالکتب العلمیة، بیروت)
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں