ایک لڑکی اور میں کافی عرصہ پہلے اللہ کو گواہ بنا کر نکاح میں آئے تھے اور ہمارا جسمانی تعلق بھی قائم ہوا تھا اور اب اس کے گھر والے اس کا نکاح کہیں اور کرنا چاہتے ہیں، نکاح والی بات میرے گھر میں معلوم ہے، لڑکی کے گھر والوں کو معلوم نہیں، کیا وہ لڑکی بغیر طلاق لیے دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟ اور اس کا جرمانہ کیا ہو گا؟ اُس نے حق مہر نہیں لیا ہے۔
نکاح منعقد ہونے کے لیے دولہا و دُلہن (یا ان کے وکیل) کی جانب سے ایجاب و قبول کرتے وقت شرعی گواہوں (دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں) کا موجود ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے، پس گواہوں کی غیر موجودگی میں اللہ کو گواہ بنا کر لڑکا لڑکی کی ایجاب و قبول کرنے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
بہرحال! جو نکاح بغیر گواہوں کے کیا گیا وہ نکاح فاسد ہوا، اس نکاح کی وجہ سے لڑکے اور لڑکی کے لیے ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں تھا، اگر لاعلمی کی وجہ سے ازدوواجی تعلق قائم ہوگیا تو اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے اور شوہر پر بیوی کو مہرِ مثل دینا لازم ہے۔
"مہر مثل" کا مطلب یہ ہے کہ جتنا لڑکی کے باپ کے خاندان میں اس جیسی لڑکیوں کا مہر ہوتاہے، ا تنا ہی مہر اس لڑکی کو دیا جائے۔
نیز یہ بھی ضروری ہے کہ آپ مذکورہ لڑکی کو اپنے سے جدا کرنے کے لیے جدائی کے الفاظ ادا کر دیں، ایسا کرنا ضروری ہے، اس کے بعد لڑکی پر عدت (تین ماہواری اگر حمل نہ ہو، ورنہ پیدائش پر عدت مکمل ہو گی) گزارنا بھی لازم ہو گی، عدت مکمل کر لینے کے بعد مذکورہ لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہو گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 131):
"(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 504)
"(وسبب وجوبها) عقد (النكاح المتأكد بالتسليم ..... (قوله: عقد النكاح) أي ولو فاسدًا، بحر."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 522):
"(و) مبدؤها (في النكاح الفاسد) بعد التفريق من القاضي ..... (أو) المتاركة."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 516)
"أن الدخول في النكاح الفاسد موجب للعدة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن