بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کا مطلب


سوال

اللہ تعالی کس اعتبار سے حاضر ناظرہے، علم و قدرت کے اعتبار سے یا ذات کے اعتبار سے؟ اور اس پر کون کون سی کتابیں ہیں؟

جواب

فتاویٰ محمودیہ میں لکھا ہے کہ:

’’حاضر کا ترجمہ ’’ہر جگہ موجود‘‘ اور ناظر کا ترجمہ ’’ہر ایک کو دیکھنے والا‘‘ اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ مختصہ ہے، یعنی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں، وہ سب کو دیکھتا اور جانتا ہے۔‘‘

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے حاضر ناظر کا یہ مطلب لکھا ہے کہ:

’’حاضر  کا معنیٰ ہے ’’ موجود‘‘ اور ناظر کا معنیٰ ہے ’’ دیکھنے والا‘‘ اور جب ان دونوں کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ شخصیت ہوتی ہے جس کا وجود کسی خاص جگہ میں نہیں، بلکہ اس کا وجود بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہے اور کائنات کی ایک ایک چیز کے تمام احوال اول سے آخر تک اس کی نظر میں ہیں۔ ‘‘

فتاویٰ محمودیہ میں ہی ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ:

’’اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، ہر صغیر و کبیر کا عالم ہے، کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں، نصوصِ صریحہ اور قطعیہ سے اس کا ثبوت ہے ۔۔۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لیے دوسری اشیاء کی طرح کوئی مخصوص مکان  محیط نہیں، کیوں کہ وہ مکانی نہیں، بلکہ واجب اور قدیم ہے اور مکان و زمان وغیرہ حادث اور اس کی پیدا کی ہوئی ہیں، پھر کوئی مکان وغیرہ کیسے محیط ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔ اور بعض نصوص میں جو خاص مکان کی طرف اشارہ ہے تو وہاں  یہ مراد نہیں کہ وہ مکان اللہ تعالیٰ کو محیط ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت علم یا  کسی دوسری صفت کا خاص غلبہ اس جگہ مراد ہے۔‘‘

اس بارے میں عربی زبان میں ’’شرح العقائد النسفیہ‘‘ میں مکمل بحث موجود ہے، باقی اردو زبان میں استفادہ کے لیے ہمارے اکابر کے اردو فتاویٰ کی کتابوں (فتاویٰ محمودیہ، کفایۃ المفتی، وغیرہ) کے عقائد والے حصہ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں