بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھنا


سوال

"الصلاة والسلام علیك یارسول الله" پڑھنا جائز ہےیا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر و ناظر ذات صرف باری تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا بتصریحاتِ فقہاء کفر ہے، جیساکہ فتاوی قاضی خان میں ہے:

"رجل تزوج بإمرأة بغير شهود، فقال الرجل للمرأة: ’’خدائے را و پیغمبر را گواہ کردیم‘‘قالوا: يكون كفراً؛ لأنه اعتقد أن رسول الله صلي الله عليه وسلم يعلم الغيب، و هو ما كان يعلم الغيب حين كان في الأحياء فكيف بعد الموت". ( ٢ / ١٨٥)

ترجمہ: کسی آدمی نے بغیر گواہوں کے کسی خاتون سے شادی کی اور کہا کہ: اللہ اور پیغمبر کو گواہ بنایا، فقہاء نے کہا کہ یہ کفر ہے؛ اس  لیے کہ اس نے یہ اعتقاد رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، حال آں کہ وہ ( پیغمبر علیہ السلام) اپنی حیاتِ دنیوی میں غیب نہیں جانتے تھے تو موت کے بعد کیسے غیب جان سکتے ہیں۔

نیز اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں حیات ہیں، اور جو شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پیش کرتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے روضہ رسول پر کھڑے ہو کر ندا و صیغہ خطاب کے ذریعہ سلام پیش کرنا جائز ہے، البتہ روضہ مبارک کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام سے درود پڑھا جائے تو اللہ رب العزت کی جانب سے مامور فرشتے پڑھے جانے والے درود کو پڑھنے والے کے نام کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں، جیساکہ احادیث میں ہے:

"٩٣٤ - وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ»". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ: فِي: "شُعَبِ الْإِيمَانِ ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"٩٣٤ - (وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ» ) : أَيْ [سَمْعًا] حَقِيقِيًّا بِلَا وَاسِطَةٍ، قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا لَايُنَافِي مَا تَقَدَّمَ مِنَ النَّهْيِ عَنِ الِاعْتِيَادِ الدَّافِعِ عَنِ الْحِشْمَةِ، وَلَا شَكَّ أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الْحُضُورِ أَفْضَلُ مِنَ الْغَيْبَةِ. انْتَهَى. لِأَنَّ الْغَالِبَ حُضُورُ الْقَلْبِ عِنْدَ الْحَضْرَةِ وَالْغَفْلَةُ عِنْدَ الْغَيْبَةِ، ("وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا ") ، أَيْ: مِنْ بَعِيدٍ كَمَا فِي رِوَايَةٍ: أَيْ بَعِيدًا عَنْ قَبْرِي (" أُبْلِغْتُهُ ") : وَفِي نُسْخَةٍ صَحِيحَةٍ: بُلِّغْتُهُ مِنَ التَّبْلِيغِ، أَيْ: أُعْلِمْتُهُ كَمَا فِي رِوَايَةٍ، وَالضَّمِيرُ رَاجِعٌ إِلَى مَصْدَرِ صَلَّى كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى} [المائدة: ٨]، (رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ)  قَالَ مِيرَكُ نَقْلًا عَنِ الشَّيْخِ: وَرَوَاهُ أَبُو الشَّيْخِ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي كِتَابِ: ثَوَابِ الْأَعْمَالِ، بِسَنَدٍ جَيِّدٍ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"  ٩٢٤ - وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ» "، رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثاني)

"٩٢٤ - (وَعَنْهُ) ، أَيْ: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً» ") ، أَيْ: جَمَاعَةً مِنْهُمْ (" سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ") ، أَيْ: سَيَّارِينَ بِكَثْرَةٍ فِي سَاحَةِ الْأَرْضِ مِنْ سَاحَ: ذَهَبَ، فِي الْقَامُوسِ: سَاحَ الْمَاءُ جَرَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، (" يُبَلِّغُونِي ") : مِنَ التَّبْلِيغِ، وَقِيلَ: مِنَ الْإِبْلَاغِ، وَرُوِيَ بِتَخْفِيفِ النُّونِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَى النُّونَيْنِ، وَقِيلَ: بِتَشْدِيدِهَا عَلَى الْإِدْغَامِ، أَيْ: يُوَصِّلُونَ (" مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ ") : إِذَا سَلَّمُوا عَلَيَّ قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا، وَهَذَا مَخْصُوصٌ بِمَنْ بَعُدَ عَنْ حَضْرَةِ مَرْقَدِهِ الْمُنَوَّرِ وَمَضْجَعِهِ الْمُطَهَّرِ، وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى حَيَاتِهِ الدَّائِمَةِ وَفَرَحِهِ بِبُلُوغِ سَلَامِ أُمَّتِهِ الْكَامِلَةِ، وَإِيمَاءٌ إِلَى قَبُولِ السَّلَامِ حَيْثُ قَبِلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَحَمَلَتْهُ إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَسَيَأْتِي أَنَّهُ يَرُدُّ السَّلَامَ عَلَى مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ، (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِمَا " فِي الْأَرْضِ ". وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَفْهُومَ مِنْ كَلَامِ الشَّيْخِ الْجَزَرِيِّ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَظَاهِرُ إِيرَادِ الْمُصَنِّفِ يَقْتَضِي أَنَّهُ مَرْوِيٌّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَتَأَمَّلْ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَذَكَرَ ابْنُ عَسَاكِرَ طُرُقًا مُتَعَدِّدَةً وَحَسَّنَ بَعْضَهَا، ثُمَّ قَالَ: وَفِي رِوَايَةٍ بِسَنَدٍ حَسَنٍ إِلَّا أَنَّ فِيهِ مَجْهُولًا، " «حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

مذکورہ بالا تمہید کے بعد  جواب یہ ہے کہ ”یارسول اللہ“ کہنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان صورتوں کے اعتبار سے اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:

1- غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۲/۱۰۸، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)

2- روضہٴ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر ’’السلام علیکم یا رسول الله‘‘یا ’’السلام علیك یا رسول الله‘‘یا ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول الله‘‘  کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا خواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔

3- صحیح عقیدہ ( کہ  میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے "الصلاة والسلام علیك یا رسول الله" پڑھنے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم اس طرح پڑھنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر وناظر سمجھ کر اس طرح پڑھا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں، اس لیے روضۂ رسول ﷺ کے علاوہ دیگر جگہوں میں اس جملہ سے احتیاط بہتر ہے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے منع کرتے ہیں، لہذا درود و سلام کا وہ طریقہ اپنانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا شبہ شرک نہ ہو،۔  اور ایسے الفاظ میں درود و سلام بھیجنا جو  رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں، زیادہ بہتر ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں