بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت کے وقت مقتدی کو کس وقت کھڑے ہونا چاہیے؟


سوال

مقتدی کو اقامت کے وقت کب کھڑا ہونا چاہیے، اور افضل کیا ہے؟ اور اس مسئلہ میں احناف کا فتوی کیا ہے؟

جواب

اگر امام سامنے یعنی محراب کی طرف سے مصلی پر آئے تو مقتدیوں کو امام کو دیکھتے ہی نمازکے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے،  اور اگر امام پیچھے  کی طرف سے آرہا ہو تو جس صف کے پاس سے امام گزرے اس صف والوں کو کھڑے ہوجانا چاہیے، لیکن اگر امام پہلے سے ہی اپنی جگہ پر موجود ہو تو اقامت کے شروع ہوتے ہی  امام اور مقتدیوں کو  کھڑے ہوجانا چاہیے؛ تاکہ نماز شروع  ہونے سے پہلے صفیں سیدھی ہوجائیں، اگر چہ بعض روایات میں "حي علی الصلاة"  کے وقت بھی کھڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے، اس سلسلے میں اگرچہ روایاتِ حدیث مختلف ہیں، لیکن اول الذکر صورت  زیادہ بہتر ہے۔

عبد الرزاق نے ابن جریج سے، اور ابن جریج نے ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام موٴذن کے ’’الله أکبر‘‘ کہتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے، یہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے ساری صفیں درست ہوجایا کرتی تھیں۔ (فتح الباری ۲: ۱۵۸)

علامہ سید احمد طحطاوی رحمہ اللہ نے در مختار کے حاشیہ میں فرمایا :

’’ہمارے فقہائے کرام نے یہ جو فرمایا ہے کہ امام اور لوگ ’’حي علی الفلاح‘‘  پر کھڑے ہوں، اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بیٹھے نہ رہیں،  یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے نہ ہوں؛ لہٰذا اس سے پہلے کھڑے ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے‘‘۔ (حاشیہ در مختار ۱: ۲۱۵ مطبوعہ مکتبہ اتحاد دیوبند)؛ بلکہ  پہلے سے کھڑا ہونا بہتر ہے، تاکہ پہلے سے لوگ نماز کے لیے تیار ہوجائیں اور صفیں بھی درست ہوجائیں؛ کیوں کہ نماز میں صفیں سیدھی رکھنا نہایت اہم؛ بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے، احادیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ (دیکھیے: مشکاۃ شریف، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف  ۹۷ - ۹۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

 اور امام محمدرحمہ اللہ نے اپنی کتاب: کتاب الصلاۃ میں فرمایا: میں نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے دریافت کیاکہ ایک شخص نماز کے لیے اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب مکبر ’’حي علی الفلاح‘‘  کہتا ہے تو امام صاحب نے فرمایا: "لاحرج"،  کچھ حرج نہیں۔ پھر دریافت کیا کہ ایک شخص شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوجاتا ہے تب بھی یہی ارشاد فرمایا: "لاحرج"، کچھ حرج نہیں۔ (یہ نسخہ ابھی مخطوطہ ہے، حضرت فقیہ الامت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ  نے کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد میں دیکھا تھا، فتاوی محمودیہ ۵: ۴۹۶، سوال:۲۲۸۲ مطبوعہ ادارہٴ صدیق، ڈابھیل، گجرات)

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مقتدی کو اقامت کے شروع میں ہی کھڑے ہوجانا چاہیے،  یہی افضل ہے اور اس مسئلہ میں یہی احناف کا فتویٰ ہے۔ 

نص الطحطاوي فی الحاشیة علی الدر هکذا:

"(قوله:والقیام لإمام وموٴتم الخ ) مسارعةً لامتثال أمره، والظاهر أنه احتراز عن التاخیر لا التقدیم، حتی لو قام أول الإقامة لا بأس اهـ، وکلمة ” لا بأس“ هنا مستعملة في المندوب."

فیض الباری میں ہے:

’’والمسألةُ فيه: أن الإمام إن كان خارج المسجد، ينبغي للمقتدين أن يَقُوموا لتسوية الصفوف إذا دَخَلَ في المسجد، وإن كان في المسجد، فالمعتبرُ قيامه من موضعه. وكيفما كان ليست المسألة من مسائل نفس الصلاة، بل من الآداب، فإن قَامَ أحدٌ قبله لايكون عاصيًا‘‘.(2/406۔ط:بیروتفقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں