بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اشیاء کی ذخیرہ اندوزی


سوال

کن اشیاء کی ذخیرہ اندوزی جائز نہیں؟

جواب

ایسی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی جوضروریات میں شامل ہوں (یعنی ان کا تعلق ضروری غذا سے ہو)، اورذخیرہ اندوزی بھی ایسی ہوکہ جس سے معاشرہ کے افراد تکلیف میں آجاتے ہیں، دام مصنوعی طور پر بڑھ جاتے ہیں یا دام بڑھنے کی صورت میں ان اشیاء کی فروخت بند کردی جاتی ہے ،حال آں کہ لوگوں کو اس کی  طلب  ہوتی ہے، اسلام میں ایسی ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے ،احادیث میں اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔

چند وعیدات ملاحظہ ہوں:

۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’الجالب مرزوق، و المحتکر ملعون‘‘. (سنن ابن ماجہ: باب الحکرۃ والجلب)یعنی: تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ کرنے والا ملعون ہے۔

۲) اسی طرح حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مسلمانوں میں گراں فروشی کی تو اللہ تعالی کا حق ہے کہ اسے قیامت کے دن بہت بڑی آگ میں ڈال دے۔ (سنن کبری بیہقی: 10855) 

البتہ اگرمعاشرے میں اس چیزکی ضرورت پوری ہورہی ہو اورمقصود لوگوں کوپریشانی میں مبتلا کرکے زائد نفع خوری نہ ہو، بلکہ صرف اس شے کو زائدمقدارمیں خریدکررکھاجائے، سیزن کے علاوہ بھی لوگوں کی طلب پراس شے کو روکانہ جائے یا اس چیز کا تعلق غذائی ضرورت سے نہ ہو تو  اس صورت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں