بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول کا لیٹ فیس ادا کرنے پر جرمانہ وصول کرنا


سوال

 اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں کہ ہمارا ایک پرائیویٹ سکول ہے، جس میں مناسب فیس کے ساتھ بچوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کیے  جاتے ہیں، والدین پر سے فیس کے بوجھ کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہم نے فیس کی مقدار بہت کم رکھی ہے جس میں اگر طلبہ فیس تاخیر سے جمع کروائیں تو ہمارے ماہانہ بل وغیرہ بھی ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ تو ہم نے فیس جمع کروانے کے لیے لازم کر دیا کہ والدین بینک میں فیس جمع کروائیں گے۔اور بینک میں سکول کے اکاؤنٹ پر ہم نے بینک کے ذریعے فیس تاخیر پر یومیہ کچھ اضافی جرمانہ لگوایا ہے، یعنی اگر ووالدین ایک دن دیر سے جمع کروائیں تو دس روپے اور دو دن کی تاخیر پر بیس روپے۔  اور مقصد یہ پیش نظر تھا کہ والدین اس کی وجہ سے جلدی فیس جمع کروئیں گے۔ لیکن اب سائل کو اس حوالے سے کچھ تذبذب ہے کہ شرعاً اس جرمانے کی کیا حیثیت ہے؟ اس حوالے سے شرعی راہ نمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔ اور اگر کوئی متبادل اس سے بہتر صورت ممکن ہو تو ضرور راہ نمائی فرمائیں؛ تاکہ ہم تعلیم جیسی عظیم دولت کے فروغ میں کسی بھی غیر شرعی صورت سے اجتناب کر سکیں۔ 

جواب

فیس کی ادائیگی میں  تاخیر پرمالی  جرمانہ لگانا شرعاً جائزنہیں ہے، فیس کی جلد وصول یابی کے لیے مالی جرمانہ کے علاوہ کوئی اور  صورت اختیار کی جاسکتی ہے، مثلاً: سرپرستوں ے کہا جائےکہ مقررہ وقت پر فیس نہ جمع کرانے کی صورت میں کلاس میں بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہوگی یا اس سے ملتی جلتی کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔

"والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال". ( كتاب الحدود، باب التعزير ۴/ ٦۱ ط: سعيد)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں