بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول میں غیر مسلم بچوں کے لیے الگ اسمبلی کروانا


سوال

 میرا ایک پرائیوٹ اسکول ہے،  جس میں کرسچن بچے پڑھتے ہیں، 8سے10،   وہ اسمبلی میں کلمے نہیں پڑھتے مسلمانوں کے ساتھ۔

سوال یہ ہے کہ کیا  ان کی  اسمبلی  الگ سے کروانا اور ان کےلیے علیحدہ کرسچن ٹیچر رکھناٹھیک ہو گا؟ سکول میں ان کے ٹیچر  انہیں ان کے کلمے ان کی اسمبلی میں الگ سے کروائیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اسکول کے غیرمسلم بچوں کے  لیے الگ سے اسمبلی کروانے کے لیے غیر مسلم ٹیچر رکھنا  جو ان کے کلمے وغیرہ پڑھائے، شرعاً جائز نہیں ہے،  اسلام کے آںے کے بعد   تمام شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں،  اب صرف دینِ  اسلام ہی برحق دین ہے،  غیر مسلموں کے لیے الگ سے اسمبلی کرواکر ان کے کلمے پڑھوانا یہ ان کے مذہب کی گویا تشہیر وترویج میں حصہ لینا ہے جو  کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔

اسکول  کی جو  اسمبلی ہوتی  ہے اس میں غیر مسلم بچے بھی شریک ہوسکتے ہیں، اگر وہ اس میں کلمے یا تلاوت نہیں کرتے تو اس پر ان کو مجبور نہیں کیا جائے،  وہ اس میں ویسے ہی کھڑے رہیں، ممکن ہے کہ یہ بعد میں ان کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

{ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدۃ: 2]

ترجمہ:  اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔(از بیان القرآن)

تفسير ابن عطية = المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز (1/ 496):
"وروى أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لاتستضيئوا بنار المشركين ولاتنقشوا في خواتيمكم عربياً. فسره الحسن بن أبي الحسن، فقال: أراد عليه السلام، لاتستشيروا المشركين في شيء من أموركم ولاتنقشوا في خواتيمكم (محمداً). قال القاضي: ويدخل في هذه الآية استكتاب أهل الذمة وتصريفهم في البيع والشراء والاستنامة إليهم، وروي أن أبا موسى الأشعري استكتب ذمياً فكتب إليه عمر يعنفه، وتلا عليه هذه الآية، وقيل لعمر: إن هاهنا رجلاً من نصارى الحيرة لا أحد أكتب منه ولا أخط بقلم، أفلايكتب عنك؟ فقال: إذاً أتخذ بطانة من دون المؤمنين".

تفسير القرطبي (4/ 179):
"وروي أن أبا موسى الأشعري استكتب ذمياً فكتب إليه عمر يعنفه وتلا عليه هذه الآية. وقدم أبو موسى الأشعري على عمر رضي الله عنهما بحساب فرفعه إلى عمر فأعجبه، وجاء عمر كتاب فقال لأبي موسى: أين كاتبك يقرأ هذا الكتاب على الناس؟ فقال: إنه لايدخل المسجد. فقال لم؟ أجنب هو؟ قال: إنه نصراني، فانتهره، وقال: لاتدنهم وقد أقصاهم الله، ولاتكرمهم وقد أهانهم الله، ولاتأمنهم وقد خونهم الله. وعن عمر رضي الله عنه قال: لاتستعملوا أهل الكتاب فإنهم يستحلون الرشا،  واستعينوا على أموركم وعلى رعيتكم بالذين يخشون الله تعالى. وقيل لعمر رضي الله عنه: إن هاهنا رجلاً من نصارى الحيرة لا أحد أكتب منه ولا أخط بقلم أفلايكتب عنك؟ فقال: لاآخذ بطانةً من دون المؤمنين. فلايجوز استكتاب أهل الذمة، ولا غير ذلك من تصرفاتهم في البيع والشراء والاستنابة إليهم. قلت: وقد انقلبت الأحوال في هذه الأزمان باتخاذ أهل الكتاب كتبةً وأمناء وتسودوا بذلك عند الجهلة الأغبياء من الولاة والأمراء". 
  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں