بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی لباس اور انگریزی لباس


سوال

اسلامی لباس کی اہمیت اورانگریزی لباس کی حیثیت پر تفصیلی فتوی تحریرفرمادیں!

جواب

    واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ کا لباس اور  آپ کی وضع  قطع  قومیت اور وطنیت کے تابع نہیں تھی،  بلکہ وحی ربّانی اور الہامِ یزدانی  کے اتباع سے تھی، عرب میں قدیم زمانے سے  چادر اور تہہ بند کا دستور چلا آرہا تھا، جو درحقیقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کا لباس تھا، جیساکہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آزربائجان  کے عربوں کو حلہ(ازار اور چادر) پہننے کی یہ کہہ کر ترغیب دی  کہ وہ تمہارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا  لباس ہے:

'' أما بعد! فاتزروا وارتدوا وانتعلوا وألقوا الخفاف والسراويلات، وعليكم بلباس أبيكم إسماعيل، وإياكم والتنعم وزي العجم ''۔

(فتح الباری لابن حجر (10 / 286) باب لبس الحریر،ط: دارالمعرفہ ،بیروت)

معلوم ہواکہ عربوں کو چادر اور تہبند اختیار کرنے کا حکم اس وجہ سے نہیں دیا گیا کہ وہ قومی لباس ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اللہ کے نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام کا لباس ہے ؛ لہٰذا اللہ کا نبی  لباس  یا معاشرہ میں قوم کا مقلد اور تابع بن کر نہیں آتا بلکہ اللہ کی وحی اور اس کے حکم سے قوم کو عقائد، اخلاق، اعمال، عبادات،  اور معاملات سب کے متعلق ہدایت جاری کرتا ہے، یہاں تک کہ  بول وبراز ( پیشاب، پاخانہ) کے آداب بھی ان کو سکھاتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ نبی عام لوگوں کے رسم و رواج کی پیروی کرے۔

 حضور ﷺ نے لباس کے متعلق بھی احکام جاری فرمائے  کہ فلاں جائز ہے، فلاں حرام ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں اور کافروں کے لباس میں امتیاز ہوگیا، اور بے شمار احادیثِ نبویہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے، اور جو لباس دشمنانِ خدا سے مشابہت کا سبب بنے ایسے لباس کو ممنوع قرار دیا ہے۔

         جیساکہ حدیثِ مبارکہ میں ہے؛

'' إن فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس''.

(سنن ترمذی،1/441، باب العمائم علی القلانس،ط: رحمانیہ)

ترجمہ: ہمارے  اور مشرکین کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم عمامہ ٹوپیوں پر باندھتے ہیں۔

       ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے؛

'' قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :... من تشبه بقوم فهو منهم''.

(المسند الجامع، (الجھاد)، 10/716 ،رقم الحدیث؛8127،  ط: دار الجیل، بیروت)

ترجمہ : حضورﷺ کا ارشاد ہے؛  جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی  تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔

ایک اور حدیث ِ مبارکہ میں ہے؛

'' إن هذه من ثیاب الکفار فلا تلبسها''۔

(مسلم، 3/1648، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،ط: داراحیاء التراث)

یعنی یہ کافروں کے(جیسے)  کپڑے ہیں ، پس ان کو نہ پہننا۔

پس  ثابت ہوگیا کہ  حضور ﷺ کا  لباس  اور آپ کی وضع قطع یہ سب وحی الٰہی کے تابع تھی۔

         نیز  یہ بات بھی ذہن نشین رہے  کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات، نباتات اور جمادات، سب کو ایک ہی مادہ سے پیدا کیا ہے، مگر اس کے باوجود ہر چیز کی صورت اور  شکل مختلف بنائی تاکہ ان میں امتیاز قائم رہے، کیوں کہ امتیاز کا ذریعہ یہی ظاہری  شکل و صورت ہے،  اور جس طرح  دنیا کی  قومیں  ایک دوسرے سے  معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ جدا  ہیں ، اس طرح ہر قوم کا الگ تمدن اور اس کی تہذیب اور اس کا طرزِ لباس  بھی اس کو دوسری قوم سے ممتاز کرتا ہے، عبادات کی  انہی خاص  شکلوں کی وجہ سے  ایک مسلم ،  موحد، مشرک اور بت پرست سے جدا ہے، اور ایک عیسائی ایک پارسی سے جدا ہے، غرض قوموں میں امتیاز کا ذریعہ یہی قومی خصوصیات ہیں، جب تک ان مخصوص شکلوں اور ہیئتوں کی حفاظت نہ کی جائے تو قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہتا۔

دینِ اسلام ایک کامل اور مکمل مذہب ہے، تمام ملتوں اور شریعتوں کا ناسخ بن کر آیا ہے، وہ اپنے پیروکاروں کا اس  کی اجازت نہیں دیتا  کہ ناقص  اور منسوخ ملتوں کے پیروکاروں کی مشابہت اختیار کی جائے، جس طرح اسلام اعتقادات اور عبادات میں  مستقل ہے کسی کا تابع نہیں ہے، اسی طرح اسلام اپنے معاشرہ اور عادات میں بھی مستقل ہے، کسی دوسرے کا تابع اور مقلد نہیں ہے۔      

حضرت مولانا ادریس کاندھلوی  رحمہ اللہ ''تشبہ'' کی حقیقت بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں؛

"تشبہ کی تعریف سنیے تاکہ  آپ تشبہ کی قباحتوں اور مضرتوں کا اندازہ لگاسکیں!!

1۔اپنی حقیقت ، اپنی صورت اور وجود کو چھوڑ کر  دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اور اس کے وجود میں مدغم ہونے کا نام تشبہ ہے۔

2۔ یا اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کا نام تشبہ ہے۔

3۔ اپنی ہیئت اور  وضع کو تبدیل کرکے دوسری قوم کی وضع اور ہیئت  اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔

4۔اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر  دوسری قوم کی شانِ امتیازی کو اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔

5۔ اپنی اور اپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنالینے کا نام تشبہ ہے۔

اس لیے شریعت  حکم  دیتی ہے کہ مسلمان قوم دوسری قوموں سے ظاہری طور پر ممتاز اور جدا ہونی چاہیے اور وضع و قطع میں بھی۔

(سیرتِ مصطفیٰ، 3/306، تشبہ کی تعریف، ط: مکتبۃ الحسن)

         شریعت میں تشبہ بالغیر کی ممانعت  کسی تعصب پر مبنی نہیں ہے، بلکہ دینی غیرت ،حمیت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کے تحفظ کے لیے ہے، اس لیے کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم  نہیں کہلاسکتی جب تک اس کی خصوصیات اور امتیازات پائیدار اور مستقل نہ ہوں۔

 نیز یہود ونصاریٰ اور کافروں کو دوست بنانے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے سے مسلمانوں کے دل بھی ان کی طرح سخت ہوجاتے ہیں ، اور احکامِ شریعت کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت   ختم ہوجاتی ہے، جیساکہ علامہ ابن حجر مکی ہیثمی رحمہ اللہ نے  اپنی کتاب "الزواجر عن اقتراف الکبائر"  میں  حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ  کی روایت سے ایک نبی کی یہ وحی نقل کی ہے:

'' قال  مالک بن دینار :  أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء: أن قل لقومک: لا یدخلوا مداخل أعدائي، ولا یلبسوا ملابس أعدائي، ولا یرکبوا مراکب أعدائي، ولا یطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي کما هم  أعدائي''۔

(1/15، مقدمہ، ط: دارالمعرفۃ،   بیروت)

ترجمہ:مالک  بن دینار کہتے ہیں کہ انبیاءِ سابقین میں سے ایک  نبی کی طرف اللہ کی یہ وحی آئی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ نہ میرے  دشمنوں کے  گھسنے کی  جگہ میں گھسیں اور نہ  میرے  دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ ہی میرے دشمنوں  جیسے کھانے کھائیں  اور نہ ہی  میرے  دشمنوں جیسی  سواریوں پر سوار ہوں ( یعنی ہر چیز میں  ان سے ممتاز اور جدا رہیں) ایسا نہ ہوکہ یہ بھی میرے  دشمنوں کی طرح میرے دشمن بن جائیں۔

( از فتاویٰ بینات، 4/372)

واضح رہے کہ غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں۔۔۔

  1. پہلا نتیجہ تو یہ ہوگا  کہ مسلمان اور کافر میں ظاہراً  کوئی امتیاز نہیں رہے گا، حقیقت یہ ہے کہ  تشبہ بالکفار کفر کی دہلیز اور اس کا دروازہ ہے۔
  2. غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی  خلاف ہے۔
  3. کافروں کا لباس اختیار کرنا  درحقیقت ان کی سیادت اور برتری کو  تسلیم کرنا ہے۔
  4. اور یہ اپنی کمتری اور  غلامی کا اقرار اور اعلان ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، کیوں کہ اسلام غالب ہوتا ہے، تابع اور مغلوب نہیں ہوتا۔

نیز  اس تشبہ کا نتیجہ یہ ہوگا  کہ  رفتہ رفتہ کافروں  سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہوگا جو صراحۃً ممنوع ہو۔

       ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ ﴾ [هود: 113]

ترجمہ:  اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں، پھر تم کو لگے گی آگ، اور کوئی نہیں تمہارا  اللہ کے سوا مددگار ،  پھر کہیں مدد نہ پاؤگے۔

(ترجمہ از شیخ الہند)

       باقی یہ بات کہ پینٹ شرٹ  مسلم اور غیر مسلم دونوں کا لباس ہے  یہ تسلیم نہیں، شرٹ اور پتلون درحقیقت غیر مسلموں کا ہی لباس تھا ، جب مسلمان عیش پرستی کا شکار ہوگئے تو نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حکومتیں زوال پذیر ہوگئیں، اور مسلمانوں سے شکست خوردہ قومیں برسرِ اقتدار آگئیں، چند روز تک مسلمانوں کو اپنی شکست اور ذلت کا احساس رہا، مگر پھر رفتہ رفتہ   مسلمانوں نے ان  کے معاشرے ، تمدن اور وضع قطع کو قبول کرنا شروع کردیا ، نوبت یہاں تک پہنچ  گئی کہ اسلامی  ممالک کے باشندے غیروں کے معاشرے میں ایسے رنگے گئے کہ اپنے اور پرائے ، مسلم اور غیر مسلم کا ظاہرِ نظر  میں کوئی فرق نہیں رہا ؛ لہذا موجودہ زمانے میں پینٹ شرٹ کے کثرتِ استعمال اور معاشرے میں اس کے شیوع  اورعام ہونے کے سبب  اکثر ممالک میں یہ کسی غیر قوم کا شعار تو نہیں رہا، اس لیے اس میں غیر اقوام  کے شعار ہونے کی حد تک  تو  تشبہ باقی نہیں رہا، البتہ یہ فساق و فجار  اور غیر صلحاء کا لباس اب بھی ہے ، اور جس طرح غیر مسلموں سے مشابہت ممنوع ہے اسی طرح فساق و فجار اور غیر صلحاء سے  مشابہت بھی ممنوع ہے۔

''مرقاۃ المفاتیح '' میں ہے؛

''(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلاً في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق، هذا وقد حكى حكايةً غريبةً ولطيفةً عجيبةً، وهي أنه لما أغرق الله -سبحانه - فرعون وآله لم يغرق مسخرته الذي كان يحاكي سيدنا موسى - عليه الصلاة والسلام - في لبسه وكلامه ومقالاته، فيضحك فرعون وقومه من حركاته وسكناته ؛ فتضرع موسى إلى ربه: يا رب! هذا كان يؤذي أكثر من بقية آل فرعون، فقال الرب تعالى: ما أغرقناه ؛ فإنه كان لابساً مثل لباسك، والحبيب لا يعذب من كان على صورة الحبيب، فانظر من كان متشبهاً بأهل الحق على قصد الباطل حصل له نجاة صورية، وربما أدت إلى النجاة المعنوية، فكيف بمن يتشبه بأنبيائه وأوليائه على قصد التشرف والتعظيم، وغرض المشابهة الصورية على وجه التكريم؟ ''

(8/155، الفصل الثانی، ط: رشیدیہ)

         اور یہ ممانعت کا حکم زمان اور مکان کے لحاظ سے  تبدیل بھی ہوسکتا ہے، جس علاقہ میں جتنی زیادہ مشابہت متصور ہوگی، اسی کے مطابق کراہتِ تحریمیہ، تنزیہیہ، اور خلافِ اولیٰ ہونے کا حکم  لگے گا؛ چناں چہ اکابر نے لکھا ہے کہ اگر کسی علاقے میں پینٹ شرٹ اب بھی غیر قوم کا مخصوص لباس اور شعار سمجھاجاتاہو تو وہاں مشابہت کا حکم باقی رہے گا۔

اور پاکستان کے لیے تو علی الاطلاق یہ حکم لگانا بھی درست نہیں ہے کہ کثرتِ استعمال کی وجہ  سے مشابہت بالکل ختم ہوگئی ہے، اس لیے کہ اگرچہ پاکستان کے اکثر شہری علاقوں اور بعض دیہاتی علاقوں میں اس کو بطورِ لباس استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  بہت سارے علاقے بالخصوص  قبائلی علاقوں اور گاؤں دیہاتوں میں  اب بھی اس کو کفار یا کم از کم  فساق و فجار اور غیر صلحاء کا لباس تصور کیا جاتا ہے ، لہذا جس علاقے میں جس قدر مشابہت متصور ہوگی اسی حساب سے کراہت کا حکم لاگو ہوگا۔

         نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ تمام تفاوت اور فرقِ مراتب علم اور اعتقاد کے اعتبار سے ہے، ورنہ عملاً ہر درجہ کے تشبہ کو  ممنوع العمل قرار دینا ہی ایک مسلمان کے لیے احتیاط اور پرہیزگاری کا باعث ہوسکتا ہے، کیوں کہ تمدن اور معاشرت کا ایک طویل سلسلہ سے، اور اس سلسلہ کی ایک کڑی دوسری کو کھینچتی ہے، پس کسی تمدن کی کسی چیز کو اختیار کرنا گویا دوسری  چیز کے لیے راستہ صاف کردینا ہے تو اس طرح انجام کار پورے ہی تمدن کا حلقہ  اپنی گردن میں ڈال لینا ہے،  اس لیے سدِ ذرائع کے طور پر تشبہ کے تمام مراتب  سے خواہ حرام ہو ں یا مکروہ تحریمی  ہوں یا مکروہ تنزیہی ، عمل کے دائرہ میں یکساں ہی احتراز کرنا چاہیے۔

 خلاصہ یہ ہے کہ پینٹ شرٹ پہنا تشبہ بالفساق والفجار اور غیر صلحاء کا لباس ہونے کی بنا پر  مکروہ ہے، اور صغیرہ گناہ  پر اصرار  اور دوام کبیرہ گناہ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، چہ جائے کہ اس کو باقاعدہ  ضابطہ اور قاعدہ بناکر اختیار کیا  جائے جس میں اس کو دوام بخشنا خوب اچھی طرح مترشح ہوتا ہو،  لہذا مذکورہ لباس کو ضابطہ بنانے  میں اس مکروہ فعل کی ترویج ہے ؛ اس لیے مسلمانوں کو  چاہیے کہ  صالحین ، دین دار، اور نیکوکاروں کے لباس کو اختیار کریں اور فساق وفجار اور کفار کے  لباس اور طور طریق سے حتی المقدور پرہیز کریں۔

'' الدر المنثور''  میں ہے؛ 

'' أخرج ابْن مرْدَوَيْه عَن عَائِشَة: أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قال: إياك ومحقرات الذُّنُوب فَإِن لَهَا من الله طَالبا''۔(5 / 401، ط : دارالفکر)

'' أحکام القرآن للجصاص '' میں ہے؛

'' قَوْله تَعَالَى: ﴿ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ يَقْتَضِي ظَاهِرُهُ إيجَابَ التَّعَاوُنِ عَلَى كُلِّ مَا كَانَ طَاعَةً لِلَّهِ تَعَالَى؛ لِأَنَّ الْبِرَّ هُوَ طَاعَاتُ اللَّهِ. وقَوْله تَعَالَى: ﴿وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ نَهْيٌ عَنْ مُعَاوَنَةِ غَيْرِنَا عَلَى مَعَاصِي اللَّهِ تَعَالَى.

(2/429،  ط: قدیمی)

''مشکاۃ المصابیح''  میں ہے؛

''عن بلال بن الحارث المزني قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحيا سنةً من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل أجور من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئاً، ومن ابتدع بدعةً ضلالةً لا يرضاها الله ورسوله كان عليه من الإثم مثل آثام من عمل بها لا ينقص من أوزارهم شيئا» . رواه الترمذي''۔

(1/30، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،  الفصل الثانی، ط: قدیمی)

قال الملا علي القاري تحت هذا الحدیث في المرقاة المفاتيح :

'' (من أحيا سنةً) ، أي: من أظهرها وأشاعها بالقول أو العمل (من سنتي) : قال الأشرف: ظاهر النظم يقتضي أن يقال: من سنني، لكن الرواية بصيغة الإفراد اهـ. فيكون المراد بها الجنس، أي: طريقةً من الطرق المنسوبة إلي واجبةً أو مندوبةً أخذت عني بنص أو استنباط، كما أفاده إضافة سنة إلى الضمير المقتضية للعموم (قد أميتت بعدي) ، قال ابن الملك: أي: تركت تلك السنة عن العمل بها يعني من أحياها من بعدي بالعمل بها أو حث الغير على العمل بها''۔

(1/245، ط: امدایہ، ملتان)

       وفیہ ایضا:

'' وقيل: كل معصية كبيرة نظراً إلى عظمة الله تعالى، وقيل: لا صغيرة مع الإصرار، ولا كبيرة مع الاستغفار''۔

(1/120،  ط: امدادیہ ملتان)

         یہ ملحوظ رہے کہ ماقبل میں  جو  پتلون پہننے  کی  "کراہت"  کا حکم بیان ہوا   یہ ایسی پتلون کے بارے میں ہے جو  ڈھیلی  ڈھالی ہو ؛ اس لیے کہ چست اور تنگ پتلون  یا کوئی اور چست لبا س پہننا جس میں اعضاءِ مستورہ کی نمائش  اور ہیئتِ کذائی خوب واضح ہوتی ہو  ناجائزہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں