بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی ریاست میں مسلمان سے زکات کے علاوہ ٹیکس لینے کا حکم


سوال

کوئی مسلمان اسلامی ریاست میں مقیم ہو اور وہیں کی شہریت رکھتا ہو اور کاروبار کرتا ہو،  مال دار ہو،  اس پر زکات کے علاوہ حکومت کی طرف سے کوئی اور ٹیکس لگانا شریعت میں جائز ہے ؟

جواب

جواب سے پہلے واضح رہے کہ زکات ٹیکس کی طرح کا لگان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عبادت ہے، جس کا مصرف کارِ سرکار چلانے کے بجائے مسلمان فقراء اور ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرنا ہے۔ لہٰذا صاحبِ حیثیت مسلمانوں کے ذمہ بہر صورت لازم ہے کہ وہ اپنے اموال کی زکات ادا کریں، چاہے کوئی اسلامی مملکت زکات وصولی کا نظم بنائے یا نہیں۔

جہاں تک بات ہے دیگر ٹیکسز کی، تو   کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لیے، سرکاری ملازمین کے مشاہرے،  سڑکوں، پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر، بڑی نہروں کا انتظام، سرحد کی حفاظت کا انتظام وغیرہ مصارف اور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اوران وسائل کو پورا کرنے کے لیے نبی کریمﷺ، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہداور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھااور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے،مثلاً:

1۔ ’’خمسِ غنائم‘‘ یعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعدباقی پانچواں حصہ۔

2۔ مالِ ِ فییٔ یعنی وہ مال جو بغیر کسی مسلح جدو جہد کے حاصل ہو۔

3۔ ’’خمسِ معادن‘‘یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ۔

4۔ ’’خمسِ رکاز ‘‘  یعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو ، اس کا بھی پانچواں حصہ۔

5۔ غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ اموال جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔

6۔ ’’ضوائع‘‘  یعنی لا وارث مال ، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ۔

ابتدائی اسلامی ادوار میں ان وسائل کی فراوانی کی وجہ سے مسلمانوں سے ٹیکس وصولی کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی، لیکن آج کے دور میں جب کہ یہ اسباب و وسائل  ناپید ہوگئے ہیں تو ان ضروریات اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیےٹیکس کا نظام قائم کیا گیا؛ کیوں کہ اگر حکومت ٹیکس نہ لے تو فلاحی مملکت کا سارا نظام خطرہ میں پڑ جائے گا، البتہ اس میں شک نہیں کہ مروجہ ٹیکس کے نظام میں کئی خرابیاں ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح بعض مرتبہ غیرمنصفانہ، بلکہ ظالمانہ ہوتی ہےاور یہ کہ وصولی کے بعدبے جا اسراف اور غیر مصرف میں ٹیکس کو خرچ کیا جاتا ہے،لیکن بہرحال ٹیکس کے بہت سے جائز مصارف بھی ہیں؛ اس لیے امورِ مملکت کو چلانے کی خاطر حکومت کے لیے بقدرِ ضرورت اور رعایا کی حیثیت کو مدِّ نظر رکھ کر ٹیکس لینے کی گنجائش نکلتی ہے۔

  اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر حکومت کے  جائزمصارف دیگر ذرائعِ آمدنی سے پورے نہیں ہوتےتو  چند شرائط کے ساتھ حکومت کو اپنے مصارف پورا کرنے کے لیے ٹیکس لینےکی اجازت ہوگی:

1۔ بقدرِ ضرورت ہی ٹیکس لگایا جائے۔

2 ۔لوگوں کے لیے قابلِ برداشت ہو۔

3۔وصولی کا طریقہ مناسب ہو۔

4۔ ٹیکس کی رقم کو ملک و ملت کی واقعی ضرورتوں اور مصلحتوں پر صرف کیاجائے۔ 

جس ٹیکس میں مندرجہ بالا شرائط کا لحاظ نہ کیا جاتا ہو تو حکومت کے لیے ایسا ٹیکس جائز نہیں، اور ایسا ٹیکس لینے والوں کے متعلق احادیث میں وعید آئی ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں