بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلام میں شریک حیات پر ضرورت کے وقت ہاتھ اٹھانے کی اجازت کا حکم


سوال

اسلام میں شریکِ حیات پر ضرورت کے وقت ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے، ضرورت کی کیا مقدار ہے؟

جواب

اسلام میں یہ بات پسندیدہ نہیں کہ بیوی پرہا تھ اٹھایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔صحیح مسلم میں ہے:

"ما ضرب رسول الله ﷺ شيئاً قطُّ بيده، ولا امرأة، ولا خادمًا".  (أخرجه مسلم، كتاب الفضائل، باب مباعدته ﷺ للآثام واختياره من المباح أسهله وانتقامه لله عند انتهاك حرماته (4/ 1814)، رقم: (2328).

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی چیز کو اپنے دستِ مبارک سے نہیں مارا، نہ ہی عورت کو، اور نہ خادم / غلام کو۔ 

قرآنِ مجید میں ہے:

{وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِْیلاً اِنَّ اللّٰهَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا} [النساء ۴: ۳۴]
ترجمہ: ’’اور جن (بیویوں) سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں (پہلے) نصیحت کرو اور (پھر اس کے بعد) ان کے بستروں میں انہیں اکیلا چھوڑ دو اور (اس پر بھی نہ مانیں تو) انہیں سزا دو۔ پھر اگر وہ اطاعت کر لیں تو ان پر الزام کی کوئی راہ نہ ڈھونڈو۔بے شک، اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اور بہت بڑا ہے۔‘‘

قرآن کریم میں نافرمان بیوی کی اصلاح کے تین طریقے ذکرکیے گئے ہیں:

پہلادرجہ یہ ہے کہ انہیں نرمی اور پیار  سے سمجھایاجائے ، جب تک یہ طریقہ مفید ہو مار نے کی قطعاً اجازت نہیں۔ 

اگروہ محض سمجھانے سے بازنہ آئیں تودوسرادرجہ یہ ہے کہ ان کابسترالگ کردیاجائے ،تاکہ ان کوشوہرکی ناراضی کااحساس ہو اوراپنے فعل پرنادم ہوں،اور اس عارضی جدائی  کی وجہ سے انہیں  کچھ احساس ہو کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ اور شرفاء کے لیے اس قدر تنبیہ کافی ہے۔خود ہی اس میں تبدیلی آئے گی ۔لہذا اگر اس میں ندامت کے کچھ اثرات ظاہر ہوں تو  آگے بڑھنے کی شوہر کو اجازت نہیں ۔

اورجوعورت اس طرح کی شریفانہ تنبیہ سے بھی متاثر نہ ہو اور اپنی غلطی پر ڈٹی رہے  ،توپھرشرعاً تادیب کے لیے معمولی ضرب کی بھی اجازت دی گئی ہے۔  لیکن اس ضرب میں بھی کئی شرائط ہیں:

1- یہ ضرب چہرے پر نہ ہو۔

2- نہ ہی اعضاءِ مخصوصہ کے قریب ہو ۔

3-  ایسی ضرب ہو کہ جس سے اس کے بدن پرنشان نہ پڑیں۔

4- نہ ایسی کوئی صورت ہو کہ جس میں بہت زیادہ تکلیف ہو۔ اس لیے  کہ مقصد تکلیف دینا نہیں، بلکہ اصلاح اور غلطی کا احساس ہے۔

اور بنیادی بات یہ ہے کہ اس ضرب کی بھی تب اجازت ہے جب واقعۃً بیوی کی غلطی ہو، اگر غلطی ہی شوہر کی ہو، یا بیوی سے ایسی غلطی ہو جو شرعاً قابلِ مؤاخذہ نہیں ہے تو صرف اَنا کی تسکین کے لیے اس قرآنی حکم کا سہارا لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔  اور امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے رسولِ اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ جواب کی ابتدا میں بیان کیا جاچکاہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144007200114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں