بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلام میں شاتمِ رسول ﷺکی سزا


سوال

 جوشخص بلحاظ اسم مسلمان ہو اور خدا تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں اور نبی آخر الزماں فخرِ موجودات اور محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی اُڑاتا ہو،  ان کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتا ہو،  جو ازواج مطہرات کی شان میں گستاخی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہو اورقرآن مجیدکے بارے میں یہ کہتا ہو کہ یہ کوئی تاریخ نہیں فقط ناول ہے ،اور اک دیوانے شخص کا خواب ہے، جسے کہانی کا رنگ دیا گیا ہے تو ایسے شخص یعنی "سلمان رشدی" ملعون کے لیے  علماء کرام کا کیا فتویٰ ہے؟ عام مسلمانوں کے لیے، علماء کرام کے لیے، حکّامِ وقت اور حکومت وقت کے لیے؟

ازراہِ کرم بتائیے ایسے مسلمانوں کے لیے  کیا حکم ہے جو ایسے گستاخ کو قتل کرنا چاہتے ہوں ،جب کہ وہ ایک غیر اسلامی ملک برطانیہ یا امریکا میں موجود ہو؟  کیا اس ملک کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم رکھے جاسکتے ہیں جب کہ وہ ملک اس ملعون کتاب کی اشاعت کی پشت پناہی بھی کررہا ہو  اور ایسے ملعون شخص کو اپنے ہاں پناہ بھی دے رکھی ہو؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو آدمی کافر ہو یا مسلم سیّد الاولین وآلاخرین، شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی  ہنسی اڑاتا ہے، یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیا رکرتاہے، یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے یا ان کی شان میں گستاخی کرتاہے،یا ان کو گالی دیتا ہے، یا ان کی طرف بُری باتوں کو منسوب کرتا ہے یا آپ کی ازواج مطہرات اور امّہات المومنین رضی اللہ عنہن کو بازاری عورت اور طوائفوں کے ساتھ تشبیہ دیتاہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتاہے اور قرآن مجید کو ایک دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے، یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر کرتاہے تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں حرکت کرتاہے تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ بھی کافر ہے۔ اور یہ ائمہ اربعہ کا مسلک ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔

جیسا کہ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بابن تیمیہ نے اپنی مشہور و معروف" کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل فرمایاہے: «ان من سب النبی صلی الله علیه وسلم من مسلم او کافر فانه یجب قتله، هذا مذهب علیه عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکیابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم القتل».1

ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ امام شافعی سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔

«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی الله علیه وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب الله له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2

محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔

مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات آفتابِ نیم روزکی مانند واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی توہین و تنقیص کرنے والا کھلا کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو آدمی اس کے کافر ہونے اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔»3

اگر گالی دینے والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔

اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد الله یقول :کل من شتم النبی صلی اللّٰه علیه وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4

جوآدمی بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کو قتل کرنا واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے  مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی قتل کردیا جائے گا۔

"الدرالمختار "میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5

"اشباہ " میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

امام احمد رحمہ اللہ اور "اشباہ "کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شاتمِ رسول کے جرم کو معاف نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔

پھر یہ شخص جب مسلسل اس جرم کے ارتکاب پر قائم اور اس پر مصرہے تواس کے واجب القتل ہونے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں۔چناں چہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ارتداد کی حالت پر بدستور برقرار رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ "فتاوی شامی" میں ہے:

«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔» 6

حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اورلیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی آدمی مرتد ہونے کا جرم بابار کرے تواسے حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔

اسی طرح "در مختار " میں ہے:  «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔» 7

ہر وہ مسلم جو نعوذ باللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرربار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔

ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ بالفرض اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔

اسی طرح امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کی شان میں گستاخی کرنے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہونچتی ہے اور گستاخی کرنے والے پر دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ امہات المومنین  کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور وہ مباح الدم ہے۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو گناہ کی تہمت لگانے والوں کے جرم کا ثبوت اور حضرت عائشہ  کی پاک دامنی کا ثبوت تو قرآن میں مذکور ہے، فقہاء کرام نے بھی اس کی رُو سے ایسے شخص کو مباح الدم کہا ہے جو حضرت عائشہ پر تہمتِ گناہ لگاتاہے۔ جیسا کہ" فتاویٰ شامی" میں ہے:

«نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشة رضی الله عنها۔» 8

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تہمت لگانے والا شخص بلا شبہ کافر ہے۔

اور ملعون "سلمان رشدی" اپنی کتاب میں امہات المومنینکی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا ہے، بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا کے بارے میں ، جیسا کہ ہفت روزہ "حریت" جلد۷ -۱۱تا۱۷نومبر ۱۹۸۸ء شمارہ ۴۵میں تفصیلی طورپرنقل کیا گیا ہے۔ اور یہ بات اہلِ دنیا کے سامنے ظاہر ہے کہ ملعون سلمان رشدی نے حالیہ ناول شیطانی آیات Satanic Versesکے علاوہ "مڈنائٹ چلڈرن" اور "شیم " میں بھی شان رسالت میں دریدہ د ہنی اور ذہنی خباثت کی بدترین مثال پیش کی ہے۔ تفصیل  انڈیا ٹوڈے ستمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت میں موجودہے۔اور مزید اس کتاب کو متعدد ممالک سے شائع کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تاکہ دنیا میں فساد پھیلایا جائے اور دین اسلام کو بدنام کیا جائے، تاریخ کو مسخ کیا جائے، ناپختہ اذہان کو اسلام سے برگشتہ کیا جائے اور مسلمانوں کے دل و جگر پر تیشے چلائے جائیں اور تلاشِ حق میں دامنِ اسلام کی طرف بڑھنے والے سادہ دل انسانوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن کیا جائے۔ لہٰذا یہ شخص اگر پہلے سے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا ہے اور ارتداد پر اصرار کرنے کی وجہ سے ملحد اور زندیق ہے جس کی توبہ کا کچھ اعتبار نہیں اور اس کی سزا قتل ہی ہے۔

دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، تبلیغِ دین اور اشاعتِ حق میں بالکل امین اور حق گو ہیں اور اس منصب کو بالکل صحیح صحیح طریقہ سے انجام دینے والے ہیں۔ اور دینِ اسلام کی تکمیل فرمادی گئی ہے، اس میں کسی قسم کی کوتاہی اور خامی نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کو اللہ پاک کا کلام سمجھتے ہیں۔ قرآن کو غیر اللہ کا کلام کہنا سراسر کفر ہے، اسی لیے جب کفارِ مکہ نے قرآن کے کلامِ انسانی ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں یہ چیلنج دیا کہ اگر قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے اور غیر اللہ کا کلام ہے تو تم اور تمہارے سارے دوست احباب اکھٹے ہوکر قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت جیسی کوئی سورت بنا لاؤ اگر تم سچے ہو۔ لیکن اب تک کوئی نہ بنا سکا نہ تا قیامت بنا سکے گا۔ لیکن شاتم رسول سلمان رشدی نے لفظ Mahoundکی آڑ لے کر یہ تاثر دیا ہے کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم میں فرشتے اور شیطان کی آواز میں تمیز کرنے کی اہلیت نہ تھی اور یوں کلامِ الہٰی کو جو حضرت جبرائیل کی وساطت سے نازل ہوا ہے، نعوذ باللہ شیطانی کلام ظاہر کرنے کی گستاخانہ مکروہ اور شیطانی جسارت کی ہے۔

ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سلمان رشدی قرآن شریف کو اللہ کا کلام ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، اور جو قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتا وہ بد ترین کافر ہے، اس قسم کے کافروں کو قتل کرنا واجب ہے ،جیسا کہ اوپر گزرا ہے۔ اسی لیے تمام اسلامی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ اگر کافر، مرتد ،زندیق سلمان رشدی ان کی حکومت کے ماتحت ہے توفوری طور پر قتل کرکے اسے جہنم رسید کریں، اگر ان کی حکومت میں نہیں لیکن سفارتی تعلقات کے ذریعہ اس پر دباؤ ڈالنا کسی بھی طریقہ سے ممکن ہے تو اس پر دباؤ ڈال کر اس کو قتل کردینا ضروری ہے، ورنہ ایک بدبخت شقی ازلی اور شاتمِ رسول کو پناہ دینے والے یا اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک سے تعلق اور دوستی رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے:

﴿لاتجد قوما یؤمنون بالله والیوم الاخر یوادون من حاد الله ورسوله ولو کانوا اٰبائهم او ابنا ئهم او اخوانهم او عشیرتهم﴾ «المجادلة :۲۲»

ترجمہ: جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف ہیں خواہ  وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا اپنے گھرانے کے ہوں۔

﴿ یا ایها الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیهم بالمودة﴾ «الممتحنة :۱ »

ترجمہ: اے ایمان والو !تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو۔

اور اگر حکومت اس امر عظیم کو انجام دینے  کے لیے  تیار نہیں ہے تو ہر مسلمان کےلیے  ضروری ہے کہ طاقتِ بشری کے مطابق کوشش کرکے اللہ کی زمین کو شاتمِ رسول سے پاک وصاف کردے ؛کیوں کہ یہ اظہارِ دینِ خداوندی کی تکمیل اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کا ذریعہ ہے، جب تک زمین سے شاتمِ رسول کو ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک مکمل دین اللہ کے لیے نہیں ہوتاہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ﴿ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کله لله ﴾ «الانفال:۳۹»

ترجمہ : اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فسادِ عقیدہ نہ رہے ،اور دین اللہ تعالیٰ کا ہوجاوے۔

اسی لیے صفحہٴ گیتی میں تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جو شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا تھا اس کو قتل کردیا جاتا تھا ، جیسا کہ کعب بن اشرف، یہودیہ عورت اور قبیلہ خطمہ کی عورت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے اور اسلام کی مخالفت میں سرگرم عمل رہنے کی وجہ سے قتل کردیا گیاتھا۔ اسی طرح حضرت کعب بن زہیر عہدِ نبوی کے ایک نامور شاعر تھے، ابتدا میں وہ اسلام کی مخالفت میں سرگرم رہے حتی کہ ہادی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجومیں کچھ شعر تک کہہ دیے، معاندانہ کاروائیوں اور ہجو گوئی کی پاداش میں بارگاہِ رسالت سے ان کے واجب القتل ہونے کا اعلان کردیا گیا تھا۔ جب کہ سلمان رشدی نے صرف سب وشتم پر بس نہیں کیا، بلکہ اس نے اسلام ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، امّہات المومنین اور قرآن مجید کے بارے میں بھی ہر قسم کی گستاخی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا جو آدمی اس کو قتل کرے گا اس کو بہت زیادہ ثواب ملے گا تاکہ زمین اس کے فتنے سے محفوظ ہوجائے، اور آئندہ کسی کو اس جیسی دریدہ دہنی کی جسارت نہ ہو۔ جیسا کہ "فتاویٰ شامی " میں ہے:

«وجمیع الکبائریباح قتل الکل ویثاب قاتلهم»9

ترجمہ:اور ایسے تمام مرتکبینِ کبیرہ جن کے گناہوں کا ضرر دوسروں کی طرف متعدی ہوتا ہے ان کو قتل کرنا جائز ہے اور قاتل ثواب کا مستحق ہے۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد انعام الحق

الجواب صحیح :1۔محمد عبدالسلام عفااللہ عنہ   2۔محمد شفیق عارف  3۔ابوبکر سعید الرحمن ________________________________________________________________________________________

1۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول،لتقی الدین ابن تیمیه-المتوفی ۷۲۸ھ المسئلة الاولی : ۳،۴ ط: نشر السنة  ملتان ۔  2۔ المرجع السابق۔ ۳،۴  ۔3۔الصارم المسلول - ۳،۴۔   4۔المرجع السابق․ ص:۴

5۔الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۲۴․ ط:سعید کراچی۔     6 ۔رد المحتارعلی الدرالمختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-مطلب مایشک فی انه ردة لایحکم بها - ۴۲۲۵۔ ط:سعید کراچی۔  7۔ الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۱،۲۳۲، ط:سعید۔کراچی۔8۔ رد المحتارعلی الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۷․ط:سعید ،کراچی۔   9۔ الد رالمختار -کتاب الحدود-باب التعزیر-۴۶۴․ط: ایچ ،ایم ،سعید کراچی۔


فتوی نمبر : 143101200011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں