بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلام علیکم لکھنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ عمومًا بہت سارے لوگ سلام الگ الگ طریقہ سے لکھتے ہیں، اکثریت " اسلام علیکم" لکھتی ہے، کیا اس طرح سلام لکھنا درست ہے؟ ایک عالم صاحب سے سنا ہے کہ اس طرح لکھنا درست نہیں؛ اس لیے کہ اس کا معنی ہے تم پر اسلام لانا واجب ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اسی طرح کیا "السلام و علیکم" بھی بد دعا ہے؟ ان دونوں الفاظ کے معنی بھی تحریر فرمادیں!

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی مسلمان کو سلام کرنے کے مسنون (یعنی سنت سے ثابت) صیغے دو ہیں:

1-  "السَّلَامُ عَلَیکُم و رحمة اللّٰه  و بركاته" (شروع میں الف لام اور میم پر پیش) اور جواب ان الفاظ سے ہو "وَعَلَیکُمُ السَّلَام و رحمة اللّٰه  و بركاته"۔ اگر  سلام میں "السلام علیکم" اور جواب میں "وعلیکم السلام" پر اکتفا کیا جائے تب بھی درست ہے۔

2- "سَلَامٌ علیکم"(شروع میں ا لف لام کا حذف اور میم پر تنوین)

اس کے علاوہ جتنے صیغے بھی سلام کے لیے بولے جاتے ہیں یا لکھے جاتے ہیں، مثلاً: "اَسلَام علیکم"، یا "اَلسَّلَامُ وعلیکم"، یہ سب الفاظ غیر مسنون ہیں۔ ان دوصیغوں کے علاوہ کسی اور صیغے سے سلام کرنا درست ہی نہیں ہے، اور نہ ہی شرعًا اس کا جواب دینا ضروری ہے۔

باقی "اسـلَام علیکم" کا معنی ہے: آپ پر اسلام ہو۔ نیز "علی" کا لفظ کبھی لازم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس اعتبار سے "علیکم" کا معنٰی "تم پر لازم ہے" سے بھی کیا جاسکتاہے۔یہ جملہ نہ بد دعا ہے اور نہ ہی دعا ہے۔

اور "السلام وعلیکم"  کا معنی ہے: سلامتی اور آپ پر، یہ بھی نہ سلام ہے اور نہ دعا نہ بد دعا۔ بد دعا اس صورت میں ہوتاہے جب "السلام" کے درمیان سے لام حذف کرکے "السام"  (بمعنٰی موت، ہلاکت) کہا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لو نون المجرد من أل كما هو تحية الملائكة لأهل الجنة يجب الرد فيكون له صيغتان، وهو ظاهر ما قدمناه سابقا عن التتارخانية، ثم رأيت في الظهيرية ولفظ السلام في المواضع كلها: السلام عليكم أو سلام عليكم بالتنوين، وبدون هذين كما يقول الجهال، لا يكون سلاما قال الشرنبلالي في رسالته في المصافحة: ولا يبتدئ بقوله عليك السلام، ولا بعليكم السلام لما في سنن أبي داود والترمذي وغيرهما بالأسانيد الصحيحة عن جابر بن سليم - رضي الله تعالى عنه - قال: «أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: عليك السلام يا رسول الله قال لا تقل عليك السلام فإن عليك السلام تحية الموتى» قال الترمذي حديث حسن صحيح، ويؤخذ منه أنه لايجب الرد على المبتدئ بهذه الصيغة، فإنه ما ذكر فيه أنه عليه الصلاة والسلام رد السلام عليه بل نهاه، وهو أحد احتمالات ثلاثة ذكرها النووي، فيترجح كونه ليس سلامًا، وإلا لرد عليه."

(كتاب الحضر والإباحة، ج:6، ص:416، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وصرح في الضياء بوجوب الرد في بعضها وبعدمه في قوله سلام عليكم بجزم الميم.

(قوله: بجزم الميم) الأولى بسكون الميم قال ط: وكأن عدم الوجوب لمخالفته السنة التي جاءت بالتركيب العربي ومثله فيما يظهر الجمع."

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:416، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144201201208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں