بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استخارہ کے مسنون طریقہ کا بیان


سوال

استخارہ کا مسنون طریقہ بتا دیں!

جواب

"استخارہ"  کا معنی ہے: خیر طلب کرنا۔ ہر اہم اور جائز معاملے میں بندہ اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کر ے، اسی کو استخارہ کہا جاتا ہے، جس کی ترغیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور خود اس کا طریقہ بھی بتایا ہے۔نیز احادیث کی رو سے یہ پتا چلتا ہے کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے۔استخارہ کا طریقہ ذیل میں درج کیاجارہاہے:

      استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے،  حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح اہتمام کے ساتھ ہمیں قرآن پاک کی سورت سکھایا کرتے تھے اسی طرح اہتمام کے ساتھ ہمیں ہر اہم کام کے لیے استخارہ کرنا بھی سکھاتے تھے، چنانچہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم کام درپیش ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھے:

"اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِیْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِه ، فَاقْدِرْهُ لِيْ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیْهِ وَ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه ، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِه".(بخاری،ترمذی )

دعاکرتے وقت جب ”هذا الأمر“ پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہو تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الأمر“کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر “یا ”هذا النکاح“یا”هذه التجارة“ یا ”هذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر“ کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے، استخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے،اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی، استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یک سوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 26):

"ومنها ركعتا الاستخارة.

مطلب في ركعتي الاستخارة.

(قوله: ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري، أو قال: عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري، أو قال: عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال: ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلماً شرح المنية.

[تتميم] معنى فاقدره اقضه لي وهيئه، وهو بكسر الدال وبضمها، وقوله «أو قال عاجل أمري» شك من الراوي. قالوا: وينبغي أن يجمع بينهما فيقول " وعاقبة أمري وعاجله وآجله " وقوله «ويسمي حاجته» قال ط: أي بدل قوله «هذا الأمر» . اهـ. قلت: أو يقول بعده وهو كذا وكذا، وقالوا: الاستخارة في الحج ونحوه تحمل على تعيين الوقت. وفي الحلية: ويستحب افتتاح هذا الدعاء وختمه بالحمدلة والصلاة. وفي الأذكار: أنه يقرأ في الركعة الأولى الكافرون، وفي الثانية الإخلاص. اهـ. وعن بعض السلف أنه يزيد في الأولى: {وربك يخلق ما يشاء ويختار} [القصص: 68]  إلى قوله: {يعلنون} [القصص: 69] وفي الثانية {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة} [الأحزاب: 36] الآية. وينبغي أن يكررها سبعاً، لما روى ابن السني: «يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات، ثم انظر إلى الذي سبق إلى قلبك؛ فإن الخير فيه»، ولو تعذرت عليه الصلاة استخار بالدعاء اهـ ملخصاً. وفي شرح الشرعة: المسموع من المشايخ أنه ينبغي أن ينام على طهارة مستقبل القبلة بعد قراءة الدعاء المذكور، فإن رأى منامه بياضاً أو خضرةً فذلك الأمر خير، وإن رأى فيه سواداً أو حمرةً فهو شر ينبغي أن يجتنب اهـ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں