بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استخارہ کی حقیقت، اس میں خواب کا آنا اور اس پرعمل کرنا


سوال

میری رشتے  کی بات  ایک  جگہ  چل  رہی  ہے   اور  ہم  نے استخارہ کروایا ہے ایک مولوی صاحب سے، تو انہوں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہے، تو  مجھے یہ جاننا ہے کہ کس بنیاد پر کوئی بھی مفتی صاحب استخارہ  نکال کر صحیح اور غلط کا بتادیتے ہیں، اور انہیں کیسے خواب آجاتے ہیں یا پتا چل جاتا ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟ کیوں  کہ میں نے گھر میں ایک ہفتہ استخارہ کیا،  مجھے کچھ نظر نہیں آیا،  مگر میرا دل مطمئن ہے، مگر اس مولوی صاحب نے اس رشتے سے احتیاط کا کہا ہے، مستقبل تو اللہ پاک کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، تو یہ آگے کی زندگی کے بارے میں بغیر ان لوگوں سے ملے کیسے اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں؟ اور میرے علم کے مطابق استخارہ ایک دعا  ہے  جس  میں  اللہ سے مدد مانگتے ہیں کہ صحیح ہے تو بہتری ڈال دے اور غلط ہےتو ہمیں اس سے دور کردے۔ مگر مولانا صاحب نے احتیاط کا کہا ہے اور یہ کہ ہوسکے تو  پیچھے ہٹ جائیں، اس کے بارے میں معلومات چاہییں   مجھے، اور اگر دارالافتاء استخارہ کرتا ہے تو راہ نمائی فرمائیں!

جواب

"استخارہ"  کا معنی ہے: خیر طلب کرنا، کسی جائز معاملہ  میں جب تردد ہو تواس کی بہتری والی جہت طلب کرنے کے لیے استخارہ  کیا جاتا ہے،اور  استخارہ  کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی سے خیر طلب کرتا ہے،  یعنی یہ دعا کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر اور بہتری ہو،  وہی کام میرے لیے مقدر فرمادیجیے، جو کام میرے لیے بہتر نہیں وہ مجھے کرنے ہی نہ دیجیے، یہ مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ خود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتا یا ہے۔

نیز احادیث کی رو سے یہ پتا چلتا ہے کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے، رسول اللہ ﷺ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خود استخارے کی ترغیب دیتے تھے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے امور میں رسول اللہ ﷺ سے مشورہ ضرور کرتے تھے، لیکن آپ ﷺ سے استخارہ نہیں کرواتے تھے؛ لہذا ہم بھی اسی کی ترغیب دیتے ہیں کہ صاحبِ معاملہ  خود استخارہ کرے، چناں چہ ہمارے ہاں استخارہ نہیں کیا جاتا۔

استخارہ کرلینے کے بعد جس کام کی طرف رجحان ہو وہی کام کرلینا چاہیے اور اسی میں اپنے لیے بھلائی اور بہتری سمجھنی چاہیے،  استخارہ کے بعد خواب دیکھنا ضروری نہیں،آپ کا قلبی رجحان جس طرف ہے  وہی کام کرلیجیے اور اسی میں بھلائی سمجھیے۔

نیز   استخارہ کے بعد اس کے مطابق عمل کرنا اگرچہ لازمی نہیں ہے، البتہ بہتر ہے   اور اس کے خلاف عمل کرنا اگرچہ جائز ہے، لیکن نقصان کا اندیشہ ہے۔

لہذا اگر آپ نے خود سات دن مسنون طریقہ سے استخارہ کرلیا ہے اور آپ کا دل اس پر مطمئن ہے تو  اسی کے مطابق عمل کرلیں، اللہ تعالیٰ اس میں بہتری فرمادیں گے۔

باقی سائل نے جن عالم کا ذکر کیا ہے، بظاہر انہوں نے استخارے کے بعد جو محسوس کیا ہوگا، وہ بطورِ مشورہ کہہ دیا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایسے ہی ہو، کیوں کہ دوسرے فرد کے سامنے بسا اوقات معاملے کی تفصیل نہیں ہوتی، بلکہ اسے  تفصیل بتا بھی دی جائے تو وہ کیفیت و احساس اسے حاصل نہیں ہوسکتا جو صاحبِ معاملہ کا ہوتا ہے، لہذا  اپنے معاملات میں خود استخارہ کرنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں