بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استحاضہ کی وجہ کیا ہے؟


سوال

’’استحاضہ‘‘  کی وجہ کیا ہے؟ یہ جنات کی وجہ سے ہو تا ہے،  کیا واقعی ایسا ہے؟

جواب

جواب سے پہلے بطورِ تمہید استحاضہ کی تعریف اور شرعی حکم درج کیاجاتاہے:

حیض و نفاس کے علاوہ خواتین کو جو خون آتا ہے شریعت کی اصطلاح میں اسے ’’دمِ استحاضہ‘‘  کہا جاتا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ ان دنوں میں نماز، روزہ ، تلاوتِ کلامِ مجید و دیگر تمام عبادات کر یں گی۔ اور ایسی خواتین جنہیں دمِ استحاضہ آتا ہو وہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کریں گی اور اس وقت کے ختم ہونے تک اسی وضو سے نماز، تلاوت، طواف وغیرہ کر سکتی ہیں، بشرطیکہ کوئی اور وضو توڑنے کا سبب پیش نہ آئے، اور نماز کا وقت ختم ہوتے ہی ان کا وضو بھی ختم ہو جائے گا، اور نماز وغیرہ کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔

رہی یہ بات کہ استحاضہ جنات (شیاطین) کی شرارت کی وجہ سے ہوتاہے ، سو اس کا تذکرہ حدیث شریف میں موجود ہے،  اس روایت کو امام ترمذی، امام ابوداؤد رحمہمااللہ سمیت دیگر ائمہ نے نقل کیا ہے۔البتہ اس کی حقیقی کیفیت کاعلم اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد ہے۔مذکورہ حدیث اورعلماء نے اس کے جو معنی لکھے ہیں، وہ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

’’ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت سے استحاضہ کا خون آتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دوں اور اس کا حکم پوچھوں ،چنانچہ میں اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان میں سرکارِ  دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت سے آتا ،ہے جس نے مجھے نماز روزے سے بھی روک رکھا ہے، اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے روئی کو بیان کرتا ہوں (یعنی تجویز کرتاہوں)؛کیوں کہ وہ خون کو لے جاتی ہے (یعنی خون نکلنے کی جگہ روئی رکھ لو؛ تاکہ وہ باہر نہ نکلے ) حمنہ نے کہا کہ وہ تو (اس سے نہیں رکے گا؛ کیوں کہ) بہت زیاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (روئی رکھ کر) اس پر لگام کی طرح کپڑا (یعنی لنگوٹ) باندھ لو۔  انہوں نے کہا کہ   وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا؛ کیوں کہ) زیادہ ہے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  پھر لنگوٹ کے نیچے) ایک کپڑا رکھ لو۔ انہوں نے کہا کہ  وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا؛ کیوں کہ بہت ہی زیادہ ہے، یہاں تک کہ خون بارش کی (دھار) کی طرح آتا ہے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو میں تمہیں دو باتوں کا حکم کرتا ہوں، ان میں سے تم جس ایک کو بھی اختیار کر لو گی دوسری کی ضرورت نہیں رہے گی، اور اگر تمہارے اندر دونوں (پر عمل کرنے) کی طاقت ہوگی تو تم خود ہی دانا ہو (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمنہ سے کہا کہ " یہ استحاضہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے، لہٰذا تم (ہر مہینہ) چھ یا سات روز (کیوں کہ غیب کا علم اللہ کو ہے) حیض کے ایام قرار دو اور پھر (مدتِ مذکورہ گزر جانے کے بعد) غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ میں پاک و صاف ہوگئی ہوں تو تئیس (23) دن رات (ایامِ حیض سات دن قرار دینے کی شکل میں) یا چوبیس (24) دن رات (ایامِ حیض چھ دن قرار دینے کی شکل میں) نماز پڑھتی رہا کرو اور اسی طرح مہینے رمضان وغیرہ کے ) روزے بھی رکھتی رہا کرو، چنانچہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت پر ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں تم بھی ہر مہینہ اسی طرح کرتی رہا کرو،  کہ چھ دن یا سات دن تو حیض کے ایام قرار دو اور بقیہ دن طہر یعنی پاکی کے ایام قرار دو ) تمہارے لیے یہ کافی ہوگا۔ اور اگر تمہارے اندر اتنی طاقت ہو کہ ظہر کے وقت میں تاخیر کر کے اس میں نہا لو اور عصر میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھ لو اور پھر مغرب کا وقت آخیر کر کے نہا لو اور عشاء میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکھٹی پڑھ لو اور نمازِ  فجر کے لیے (علیحدہ) نہا لو تو اسی طرح کر لیا کرو ( جن دنوں میں نماز پڑھو ان دنوں میں نفل اور فرض جیسے بھی چاہو) روزے رکھ لیا کرو اور اگر تم میں اس کی طاقت ہو تو (اس طرح کرتی رہا کرو) پھر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں باتوں میں سے آخری بات مجھے بہت پسند ہے‘‘۔

صاحب مظاہر حق اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

’’ یوں تو استحاضہ کا خون آنا مرض کی بنا پر ہوتا ہے،  تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے کہ یہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بہکانے اور عبادت کے اندر خلل ڈالنے کے لیے شیطان کو موقع ملتا ہے،  چنانچہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکی و صفائی اور نماز وغیرہ میں فساد کا بیج بوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ کی حقیقت بیان فرما کر سائلہ کو دو ایسے حکم دیے جن پر عمل کرنے سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘۔

شرح الترمذی للشنقیطی میں ہے :

’’ فقال :(( إنما هي ركضة من الشيطان )) : قوله عليه الصلاة والسلام:(( إنما هي ركضة من الشيطان )) : هذا الذي معكِ من جريان الدم على هذا الوجه حتى أصبحتي تتركين الصلاة وتتركين الصيام ماهو إلا ركضة من الشيطان إما أن تكون ركضة حقيقة يركض الفرج وينقطع العرق كما ثبت في قوله عليه الصلاة والسلام:(( إنما ذلكِ عرق)) وجاء في رواية المسند :((عرقٌ انقطع)) فينقطع العرق على وجع لانعلمه والعلم عند الله سبحانه وتعالى، فإذا كان على هذا الوجه تكون الركضة حقيقة؛ لكن كيفيتها؟ كيف كيفيتها؟ كيف الكيفية التي يتم بها ذلك الركض؟ أصل الركض الضرب بالرجل قال تعالى: {ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ} فهي ركضة من الشيطان كيفيتها، فهذا من علم الغيب الذي لايعلمه إلا علام الغيوب سبحانه وتعالى، وهو من مسائل الروح التي يكف عن الخوض فيها؛ لأنه ليس ثَّم نص يفسر حقيقتها ويبنيها.

أو تكون ركضة من الشيطان أي أن الشيطان قصد أن يلبس عليها دينها وأن يجعلها تترك الصلاة، إنما هي ركضة من الشيطان أي كونكِ تاركةً للصوم والصلاة بهذا الدم الذي ليس بدم حيض لعبٌ من الشيطان بك وهذا اللعب فيه أذية لكِ كأذية الركض والضرب فحينئذ يكون نوعاً من التلبيس قصد أن يلبس عليها أمور عبادتها فخلط لها فسار معها الدم، والشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم كما ثبت في الخبر عنه عليه الصلاة والسلام، وعلى هذا قالوا: إنه يلبس عليها أمر دينها فأصبحت ركضة من الشيطان؛ لأن الشيطان يبحث في أذيته عن إفساد دين الإنسان بأي صورة كان فقد يدخل عليها هذا الأمر فيجعلها تظن أنها حائض وأنه لايجب عليها أن تصوم ولاتصلي والواجب عليها أن تصوم وتصلي فتركت الصلاة وهي غير معذورة وكان تركها ركضة من الشيطان وعبثاً من الشيطان بها.‘‘ (60/21)

معالم السنن میں ہے :

’’وقوله: إنما هي ركضة الشيطان؛ فإن أصل الركض الضرب بالرجل والإصابة بها يريد به الإضرار والإفساد، كما تركض الدابة وتصيب برجلها، ومعناه -والله أعلم-: أن الشيطان قد وجد بذلك طريقاً إلى التلبيس عليها في أمردينها ووقت طهرها وصلاتها حتى أنساها ذلك فصار في التقدير كأنه ركضة نالتها من ركضاته، وإضافة النسيان في هذا إلى فعل الشيطان، كهو في قوله سبحانه {فأنساه الشيطان ذكر ربه} [يوسف : 42] وكقول النبي صلى الله عليه وسلم : إن نساني الشيطان شيئاً من صلاتي فسبحوا، أوكما قال، أي إن لبس علي‘‘. (1/89)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں