اگر کسی عورت نے قرآنِ مجید کی قسم کھائی یعنی ’’اس قرآنِ مجید کی قسم میں آپ کے پاس نہیں آؤں گی‘‘. اور دل سے قسم اٹھائی اور دل میں یقین ہو کہ قرآن سے قسم ہوتی ہے، اور اس کو پتا بھی نہ ہو کہ قسم کے الفاظ الگ ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟
قرآن کی قسم کھانے سے منع کیاگیاہے، لیکن اگر کسی نے قسم کے الفاظ کہتے ہوئے قرآن پاک کی قسم کھالی (مثلا یہ کہا کہ ’’اس قرآنِ مجید کی قسم میں آپ کے پاس نہیں آؤں گی‘‘) تو اس طرح کہنے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے۔
اگر کسی جائز یا بہتر کام کی قسم کھائی ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے، البتہ اگر قسم ٹوٹ جائے یا نامناسب کام پر قسم کھائی تھی اور اسے توڑدیا (جیساکہ حکم ہے کہ گناہ کے کام یا نامناسب بات پر قسم کھائی جائے تو اسے توڑ دینا چاہیے) تو اس کے توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے, چاہے تو ہر مسکین کو ایک صدقہ فطر کی مقدار (پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت) بھی دے سکتا ہے، یا دس مسکینوں کو لباس پہنائے، اور ان دونوں صورتوں کی گنجائش نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200253
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن