بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارطغرل نامی ڈرامے کو ثواب سمجھ کر دیکھنا، اورلوگوں کو دیکھنے کی ترغیب دینے کا حکم


سوال

1: ارطغرل نامی ڈراما  دیکھنا کیسا ہے؟
2:  اسے ثواب سمجھ کے دیکھنا،  اس کے دیکھنے پر یہ کہنا الحمدللہ اتنی قسطیں دیکھ لیں کیسا ہے؟
3: اس کے دیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ کہنا  کہ لوگ فیس بک اور فحش چیزیں دیکھنے سے بچ جائیں،کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تصویر کسی بھی جان دار کی  ہو اس کا بلا ضرورت بنانا، رکھنا اور  دیکھنا قطعاًجائز نہیں، نیز  خواتین  کی تصاویر دیکھنے  میں بد نظری کا گناہ بھی ہے، اسی طرح موسیقی کا سننا بھی شرعًا حرام ہے اور   مختلف سائلین کی طرف سے ارسال کردہ تفصیلات کے مطابق مذکورہ ڈراما جان دار  کی تصاویر  پر مشتمل ہونے کے  ساتھ ساتھ عورتوں کی تصاویر اور موسیقی  پر بھی مشتمل ہے،  لہذا بصورتِ  مسئولہ

1: مذ کورہ (ارطغرل نامی) ڈراما  ہو  یا کوئی اور ڈراما  یا فلم، کسی کا بھی  دیکھنا شرعاً جائز نہیں، حدیث شریف میں تصویرکشی پر سخت وعیدیں آئی ہے۔

2:   ڈراموں کو اگر ثواب سمجھ کر دیکھا جائے تو یہ  شدید ترین گناہ بن جائے گا؛ کیوں کہ کسی بھی گناہ کے کام کو نیکی سمجھ کر کرنا بہت بڑا جرم ہے، حضورِ اکرم ﷺ  نے اس عمل کو قرب قیامت کی علامات میں شمار کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

”عن موسی بن أبي عیسی المدیني: قال: قال رسول الله صلى الله علیه و سلّم: ” كیف بكم إذا فسق فتیانکم و طغى نساءكم؟ قالوا: یا رسول اللہ! و إن ذلك لکائن؟ قال: نعم و أشدّ منه، کیف بکم إذا لم تأمروا بالمعروف و تنهوا عن المنکر؟ قالوا: یا رسول الله و إن ذلك لکائن؟ قال: نعم و أشدّ منه، کیف بکم إذا رأیتم المنکر معروفاً و المعروف منکراً.‘‘

(کتاب الرقائق، ابن مبارک ص:۴۸۴)

ترجمہ:… ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی؟  صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے؟  صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی  جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے؟

نیز عام طور سے گناہ کو نیکی سمجھ کر کرنے والے کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی ہے۔

3:  عموماً ٹی وی پر آنے والے پروگرام موسیقی ناچ گانے، بد نگاہی کے اسباب سے خالی نہیں ہوتے، لہذا اس قسم کے پروگراموں کے دیکھنے کی ترغیب دینا (علاوہ جان دار کی تصویر دیکھنے دکھانے کے) اشاعتِ فاحش، و  معاونت علی الاثم کے قبیل سے ہےاور لوگوں کو ایک برائی سے بچاکر دوسرے برائی میں ڈالنا ہے،نیز دیکھنے والا خود تو گناہ گار ہے ہی دوسروں کو بھی گناہ میں مبتلا کرنے والا ہے، اور اس شخص کی ترغیب کی وجہ سے جتنے لوگ ڈراما  دیکھیں گے،سب کے گناہ میں یہ شخص برابر شریک ہوگا، جیسا کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا:

”من سنً في الإسلام سنّةً سیئةً کان علیه وزرها و وزر من عمل بها.“ (مشکوٰة ص:۳۳)

یعنی  جس نے کوئی بُرا طریقہ ایجاد کیا، اس کا وبال اور ان سب لوگوں کا وبال جنہوں نے اس کی تقلید میں اس بُرے عمل کو اپنایا، اس کی گردن پر ہوگا۔

بہرحال نفس ٹی وی دیکھنے یا موبائل پر ٹی وی والے ہر طرح کے پروگرام اور ڈرامے دیکھنے سے ہی مکمل اجتناب کرنا چاہیے، بلکہ موبائل کے ذریعہ بھی کسی بھی قسم کی ویڈیو دیکھنا جائز نہیں ہے۔

البتہ خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ جاننے کے لیے مستند کتبِ تاریخ سے استفادہ کیا جاسکتاہے، اور اسلامی تاریخ پڑھنے کے لیے مستند اور جائز ذرائع کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔

فتاوی شامیمیں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط: سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 «وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه )

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144201200666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں