بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اراضی ہند کے عشری یا غیرعشری ہونے کا حکم


سوال

غیرعشری زمین کا کیا حکم ہے؟ کیا اس میں زکات واجب ہے؟ فتویٰ دارالعلوم دیوبند کے مطابق ہندوستان کی زمین غیر عشری ہے تو  کیا جو شخص اپنے پیدا ہونے والے غلوں کا عشر نہیں نکالتا ہے وہ مستحقِ وعید ہے ؟ اس سلسلے میں قدرے  تفصیل مطلوب ہے!

جواب

اراضی ہند کے عشری یا غیر عشری ہونے کے  حوالے سے قدرے  تفصیل’’فتاوی رحیمیہ‘‘ میں  درج ہے، جس کے مطابق  اراضی ہند کی  پیدا وار کے بارے میں فیصلہ کیا جائے، اور جو زمینیں عشری ہوں ان کے مالکان کو عشر نکالنا ضروری ہوگا، نا نکالنے  کی صورت میں ایسے افراد مستحق وعید ہوں گے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’ہمارے ملک کی پیداوار میں مسلمان پر عشر ہے یا نہیں ؟ اور اس کے ضروری مسائل:

(سوال ۱۷۶)

فی زماننا مسلمانوں پر ان کی کھیتی کی زمینوں کی پیداوار کا اور باغات کے پھلوں کا عشر ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟اگر عشر ادا کرناہوتو عشر کے ضروری مسائل بھی تحریر فرمادیں ، بینوا توجروا ۔

(الجواب)

بسم الله الرحمن الرحیم، حامداً ومصلیا ًومسلماً وهو الموفق.

مسئلہ مختلف فیہ ہے، دونوں طرف علماء کے اقوال ہیں … احتیاط اس میں ہے کہ ایسی زمینیں جو مسلمانوں کے پاس نسلاً بعد نسل وراثۃً چلی آرہی ہوں یا مسلمانوں سے خریدی ہوں یا بطورِ ہبہ ملی ہوں اور درمیان میں کسی غیر مسلم کی ملکیت ثابت نہ ہو تو  ایسی زمینوں کو عشری سمجھا جائے اور عشر ادا کیا جائے، عشر میں عبادت کا پہلو غالب ہے اور اس میں مساکین کا فائدہ بھی ہے، اور جن زمینوں پر کافروں کی ملکیت ثابت ہو وہ عشری نہیں خراجی ہیں، اور جن زمینوں کا صحیح حال معلوم نہ ہو تو بدلیلِ استصحابِ حال ایسی زمینیں بھی عشری کہلائیں گی۔

حکومتِ وقت نے اپنے کسی قانون کے تحت جن زمینوں پر خود مالکانہ قبضہ کر لیا ہو یا زمین کسی کو دلوادی ہوتو ان زمینوں میں عشر واجب نہ ہوگا اور وہ زمینیں جو حکومتی قانون کے باوجود حسبِ سابق مسلمانوں ہی کی ملکیت میں رہی ہوں ان زمینوں کا عشر ادا کیا جائے اور اس صورت میں حکومتی قانون کا مطلب صرف منتظمانہ قبضہ ہوگا،کما حررہ الشیخ التھانویؒ۔

قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کافتوی:

(۱) مسئلہ: ہمارے یہاں کی اراضیات عشری ہیں یا خراجی ہیں؟

(الجواب)  اراضیاتِ ہند بعض عشری ہیں، بعض خراجی، فقط و اللہ  تعالیٰ اعلم  (فتاویٰ رشیدیہ ص ۵۵ ج۳)

(۲)  مسئلہ: اس طرف کی زمین عشری کی کیا شناخت ہے؟

(الجواب)  زمین عشری وہ ہے جو اول سے مسلمانوں کے پاس ہو اور عشری پانی سے سیراب کی جاتی ہو ، فقط . (فتاویٰ رشیدیہ ص ۵۴ج۲)

حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(۱)  اب ایک مسئلہ قابل غو ر یہ ہے کہ عشرکس زمین میں ہے؟ تو یاد رکھو کہ عشر، زمین عشری میں ہے اور وہ وہ زمین ہے کہ جب سے مسلمانوں نے فتح کیا ہے وہ زمین کسی کافر کے قبضہ میں نہ آئی ہو، اب زمین کی تین حالتیں ہوں گی ۔

ایک یہ کہ معلوم ہوجائے کہ یہ زمین مسلمانوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے، اس میں تو عشر کا وجوب ظاہر ہے، دوسرے یہ کہ معلوم ہوجائے کہ یہ زمین کافروں کے ہاتھ سے آئی ہے اس میں عشر نہیں ہے،  تیسرے یہ کہ معلوم نہ ہو کہ یہ کافروں کے ہاتھ سے آئی ہے یا مسلمانوں کے، مگر اس وقت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، یہ بھی باستصحابِ حال قسمِ اول کے حکم میں ہے ۔( التبلیغ وعظ ’’ العشر‘‘ ص ۲۰)

(۲) (سوال۸۹ ) عشری زمین کے متعلق جو کچھ حضور کی تحقیق ہو مفصل تحریر فرمائی جاوے ۔

(الجواب)  حاصل مقام کا یہ ہے کہ جو زمینیں اس وقت مسلمانوں کی ملک میں ہیں اور ان کے پاس مسلمانوں ہی سے پہنچی ہیں، ارثاً وشراءً  وہلم جراً، وہ زمینیں عشری ہیں اور جو درمیان میں کوئی کافر مالک ہوگیا تھا وہ عشری نہ رہی اور جس کا حال کچھ معلوم نہ ہو اور اس وقت مسلمانوں کے پاس ہے یہی سمجھا جاوے گا کہ مسلمان ہی سے حاصل ہوئی ہے بدلیلِ الا ستصحاب پس وہ بھی عشری ہوگی، وقدر العشر معروف، فقط ۔۱۸ محرم ۱۳۲۶؁ھ۔(امداد الفتاویٰ ص ۵۲ج۲، کراچی)،  (جواہرا الفقہ ص ۲۶۰ج۲)

(۳)  (سوال ۹۰)  ہندوستان کی زمین بحالتِ موجودہ(یعنی انگریزی حکومت میں) خراجی ہے یا عشری، جب گورنمنٹ برطانیہ نے بعد غدر کے سلطنت کی باگ اپنے قبضہ واقتدار میں لی تھی تو اس وقت اعلانِ عام کیا تھا کہ تما م اراضی ضبط کر لی گئیں اور کسی کاحق نہیں ہے، اگر صاحبِ اراضی دعویٰ کر کے ثبوت پیش کر ے تو اس کوحسبِ تجویزِ حاکم دی جاوے گی،  چناں چہ جن مالکانِ اراضی نے دعویٰ کرکے بینہ قائم کیے ان کو وہی اراضی یا بعوض ان کے دیگر اراضی عطا ہوئیں اور بعض کو کسی امر کے صلہ میں زمین عطا ہوئی اور مال گزاری سرکاری جو سالانہ زمین داروں سے بادشاہِ وقت لیتا ہے مقرر کر دی اور بعض کو معاف کر دی۔

(الجواب)  ضبط کرنے کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک قبضۂ مالکانہ، اگر یہ ہوا ہے تو وہ اراضی عشری نہیں رہیں،  دوسرا قبضۂ مالکانہ وحاکمانہ و متنظمانہ۔ اور احقر کے نزدیک قرائنِ قویہ سے اسی کو ترجیح ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو اراضی ٔ عشریہ بحالہا عشری رہیں، البتہ اگر پہلے سے وہ ارض عشری نہ تھی یا سرکار نے کوئی دوسری زمین اس کی زمین کے عوض میں دے دی یا کسی صلہ میں ا س کو کوئی زمین دی، سو چوں کہ وہ دینے کے قبل استیلا سے سرکار کی ملک ہوگئی تھی؛ لہذا وہ عشری نہ رہی۔(امداد الفتاویٰ ص ۵۲،ص۵۳ ج۲)،  (جواہر الفقہ ص ۲۶۰،ص۲۶۱ج۲)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

ہندوستانی اراضی کے عشری یا خراجی ہونے کی تحقیق:

تقسیمِ ملک کے بعد جو خطہ ہندوستان کے نام سے مخصوص ہو کر ہندو اکثریت کے اقتدار میں آیا ، اس کی وہ زمینیں جو قدیم سے مسلمانوں کے مالکانہ قبضہ میں چلی آرہی ہیں اور کسی دور میں اس پر کسی کافر کی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے وہ تو جس طرح عہدِ برطانیہ میں عشری تھیں آج بھی عشری رہیں گی۔ البتہ جو  اراضی مسلمان ہندوستان میں چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے ان کی متروکہ اراضی کو حکومتِ ہند نے عموماً  تارکانِ وطن ہندوؤں اور سکھوں وغیرہ غیر مسلموں میں تقسیم کیا ہے، اگر ان سے خرید کر یا کسی دوسرے ذریعہ سے وہ کسی مسلمان کی ملکیت میں آجائیں تو وہ زمینیں اگر پہلے عشری بھی ہوں تو  اب غیر مسلم کے استیلا  کی وجہ سے خراجی ہوجائیں گی۔  اگر اسی طرح کسی جگہ مسلمانوں کی متروکہ زمین حکومتِ ہند نے کسی مسلمان ہی کو ابتداءً  دے دی ہو تو وہ بھی بوجہ استیلا کے عشری نہ رہے گی، بلکہ خراجی ہوجائے گی۔ ہندوستان کی باقی سب زمینوں کے اَحکام وہی رہیں گے جو عہدِ برطانیہ میں یا اس کے پہلے اسلامی عہد میں تھے، جس کی تفصیل اوپر معلوم ہوچکی ہے کہ جو زمینیں نسلاً بعد نسل مسلمانوں کی ملک میں چلی آتی ہیں اور کسی دور میں ان پر کسی کافر کی ملکیت ثابت نہیں وہ بطورِ استصحابِ حال کے ابتدا ہی سے مسلمانوں کی ملک قرار دے کر عشری سمجھی جائیں گی اور جن پر کسی وقت غیر مسلموں کا مالکانہ قبضہ تھا، پھر ان سے خریدکر یا کسی دوسرے جائز ذریعہ سے مسلمانوں کی ملکیت میں آگئیں تو وہ خراجی قرار پائیں گی۔ (جو اہر الفقہ ۲/۲۶۲)

اسلامک فقہ اکیڈمی کی چھٹے فقہی سیمینار کی تجویز بسلسلۂ عشری وخراجی اراضی بھی ملاحظہ کر لی جائے:

’’ عشر  کے ضروری مسائل‘‘

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 ’’ عشر  اسی کے ذمہ ہے جس کے پاس کھیت تیار قابلِ حصاد ہو، اسی طرح جس کا باغ نمٹ گیا ہو اور اگر کھیت پر آفت آگئی یا باغ کا پھل پھول برباد ہوگیا تو عشر واجب نہیں۔

دوسرے یہ کہ بعض لوگ تو اپنا کھیت خود کاشت کرتے ہیں اور بعضے دوسروں کو کاشت کے لیے دیتے ہیں،  جو لوگ خود  اپنے کھیت کو  بوتے ہیں ان پر عشر کا واجب ہونا تو ظاہر ہے جب کہ زمین عشری ہو اور جو لوگ دوسروں کو دیتے ہیں ان کی چند صورتیں ہیں:

 ایک یہ کہ زمین بٹائی پر دیں اس صورت میں اپنے اپنے حصہ کاعشر دو نوں کے ذمہ ہے کا شت کار کے بھی اور زمین دار کے بھی، دوسری صورت یہ ہے کہ زمین ٹھیکہ پر دی جائے، مثلاً فی بیگہ من بھر غلہ لیں گے یا فی بیگہ دور روپیہ، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ عشر کس کے ذمہ ہوگا؟  مگر ہم لوگ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ عشر کا شت کار کے ذمہ ہے؛ کیوں کہ کاشت کا وہی مالک ہے ۔ الی قولہ ۔ ایک بات یہ معلوم کرنا چاہیے کہ عشر کی مقدار کیا ہے؟ سو اس کا مدار پانی پر ہے، توجس زمین کوکنویں سے پانی دیا جائے یا جس میں سرکاری نہر سے پانی دیا جائے اس میں پیداوار کا بیسواں حصہ ہے (مثلاً دس کلو ہو تو آدھا کلو ادا کرے) اور جو بارانی ہو (بارش کاپانی ہو ) اس میں دسواں حصہ (مثلاً دس کلو ہو تو ایک کلو ادا کرے ) نیز  باغات میں بھی عشر ہے جب کہ زمین عشری ہو اور اس کی مقدار کا مدار بھی پانی ہے اور عشر کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے کہ اس میں بھی تملیکِ فقیر واجب ہے ۔الخ (التبلیغ وعظ العشر ص ۱۰،ص۲۰)

علم الفقہ میں ہے:

زکاۃ اور عشر میں سات فرق ہیں:

(۱)عشر کے واجب ہونے میں کسی نصاب کی شرط نہیں قلیل اور کثیر ہر چیز میں عشر واجب ہوتا ہے بشرط یہ کہ ایک صاع سے کم نہ ہو ۔

(۲) اس میں یہ بھی شرط نہیں کہ وہ چیز ایک سال تک باقی رہ سکے جو چیزیں نہ باقی رہ سکیں ان پر بھی عشر واجب ہے، جیسے ترکاریاں ،کھیرا، ککڑی، تربوز خربوزہ، لیمو، نارنگی ، امرود آم وغیرہ۔

(۳) اس میں ایک سال کے گزرنے کی بھی قید نہیں حتی کہ اگر کسی زمین میں سال کے اندر دو  مرتبہ کا شت کی جائے تو ہر مرتبہ کی  پیداوار میں عشر واجب ہوگا، سال میں دو مرتبہ تو اکثر  زمینیں کاشت کی جاتی ہیں، مگر درختوں میں سوا امرود کے کوئی درخت سال میں دو مرتبہ نہیں پھلتا، اور بالفرض اگر کوئی درخت دو مرتبہ یا اس سے زیادہ پھلے تو ہر مرتبہ عشر دینا ہوگا۔

(۴) عشر کے واجب ہونے کے لیے عاقل ہونے کی بھی شرط نہیں، مجنون کے مال میں بھی عشر واجب ہے۔

(۵) بالغ ہونا بھی شرط نہیں نابالغ کے مال میں بھی عشر واجب ہے۔

(۶) آزاد ہونا بھی شرط نہیں مکاتب اور مأذون کے مال میں بھی عشر واجب ہے۔

(۷) زمین کا مالک ہونا بھی شرط نہیں، اگر وقف کی زمین ہو یا کرایہ کی تو اس کی پیداوار پر بھی عشر واجب ہے، ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ  وہ چیز  قصداً  بوئی گئی ہو یا وہ خرید و فروخت کے قابل ہو ، اگر خود رو اور بے قیمت چیز ہو، جیسے گھاس وغیرہ تو اس میں عشر نہیں، ایک چیز بعض مقامات میں قابلِ قدر ہوتی ہے اور ا س کی خرید و فروخت کی جاتی ہے اور بعض مقامات میں وہی چیز بے قدر ہوتی ہے کوئی ا س کی خرید وفروخت نہیں کرتا۔  (جس جگہ ) وہ قابلِ قدر ہے (وہاں ) اس پر عشر واجب ہوگا اور جہاں بے قدر ہے وہاں نہ ہوگا،  اور یہ بھی شرط ہے کہ اس زمین پر خراج واجب نہ ہو اگر خراج واجب ہوگا تو پھر عشر واجب نہیں ہوسکتا ؛ کیوں کہ دو حق ایک زمین پر واجب نہیں ہوتے۔ جو زمین کہ خراجی نہ ہو اور وہ بارش کے یا دریا کے پانی سے سینچی جاوے  (یعنی پانی بلا قیمت اور بلا محنت میسر آجاتا ہو) تو ا س کی پیداوار میں عشر فرض ہے، (مثلاً دس من میں ایک من) اور جو زمین کنویں سے سینچنی جاوے خواہ بذریعہ پر کے یا بذریعہ ڈول کے یا مول کے پانی سے (یعنی پانی قیمت دے کر خریدنا پڑا  ہو  یا محنت کرنا پڑی ہو ) تو اس کی پیدا وار میں عشر کا نصف یعنی بیسواں حصہ (مثلاً دس من میں آدھا من ) فرض ہے۔  اور اگر کوئی زمین دونوں قسم کے پانیوں سے سینچی گئی ہو تو اس میں اکثر کا اعتبار ہوگا یعنی اگر زیادہ تر بارش یا دریا کے پانی سے سینچی گئی ہے تو عشر دینا ہوگا اور جو  دنوں قسم کے پانی برابر ہوں تو بھی نصف عشر دینا ہوگا ۔الی قولہ ۔ جس قدر پیداوار ہے اس سب کا عشر ہونا چاہیے بغیر اس کے کہ بیچ کی قیمت، بیلوں کا کرایہ، ہل چلانے والے باغ یا کھیت کی حفاظت کرنے والوں کی مزدوری یا کھیت کا لگان وغیرہ اس سے وضع کیا جائے، مثلاً کسی کھیت میں بیس من غلہ پیدا ہوا تو اس کو چاہیے کہ دو من عشر میں نکال دے اگر زمین بارش یادریا سے سینچی گئی ہو ۔ اور جو کنویں وغیرہ سے سینچی گئی ہو تو ایک من نکالے یہ نہ کرے کہ اس بیس من غلہ سے تمام اس کے اخراجات کا شت نکالنے کے بعد جو باقی رہ جائے، مثلاً دس من رہ جائے تو اس کا عشر یعنی ایک من یا نصف عشر یعنی بیس سیر نکالے الخ ۔(علم الفقہ ص ۴۲،ص۴۳، ص ۴۴ ج ۴، حضرت مولانا محمد عبدالشکور لکھنویؒ)فقط واللہ اعلم بالصواب ۔ احقر الا نام سید عبدالرحیم لاجپوری غفرلہ راندیر ، ۱۷ جمادی الثانیہ ۱۴۱۶؁ھ (۹۵/۱۱/۱۱)‘‘. (فتاویٰ رحیمیہ، باب العشر والخراج، ٧ / ١٦٤ - ١٦٧)۔ فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں