بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے جوابات کی وجہ


سوال

اذان میں جب مؤذن "حي علی الصلاة" اور "حي علی الفلاح" کہے تو سننے والے "لا حول ولا قوة"  کیوں کہتے ہیں؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟  اور وہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اور اقامت میں "قد قامت الصلاة" کے جواب میں "أقامها الله و أدامها"  کیوں  کہا جاتا ہے؟

جواب

حدیثِ مبارک  میں ہےکہ "حي علی الصلاة" اور "حي علی الفلاح" کے جواب میں "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّهَ اِلاَّ بِاﷲِ"  کہا جائے۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّهَ اِلاَّ بِاﷲِ"  کا معنٰی ہے: گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ گویا مؤذن نماز اور فلاح کی طرف بلارہا ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان کی طرف آنا اللہ کی توفیق ہی سے ممکن ہے۔

نیز   "قد قامت الصلاة"  میں نماز کے کھڑے ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔ اور اس کے جواب میں یہ کہا جارہا ہے اللہ تعالی سدا اس نماز کو قائم و دائم رکھے۔

"قَالَ يَحيی: وَحَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِنَا: أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا قَالَ حَيَّ عَلَی الصَّلاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّهَ اِلاَّ بِاﷲِ، وَقَالَ: هٰکَذَا سَمِعْنَا نَبِيَّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ". (صحيح البخاري، کتاب الأذان، باب ما يقول إذا سمع المنادي، 1 : 222، رقم : 588)

"إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ". (صحيح البخاري، کتاب الأذان، باب ما يقول إذا سمع المنادي، 1 : 221، رقم : 586)

وفي الدر المختار (۴۰۰/۱):

"(ویجیب الإقامة) ندبًا إجماعًا (کالأذان) ویقول عند قدقامت الصلاة أقامها اﷲ وأدامها". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں