بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے بعد مؤذن کا لوگوں کو جگانا


سوال

 ہماری بستی میں ایک شخص فجر کی اذان  دیتاہے اور اس کے بعد گھر گھر جاکر بآواز بلند سب کو جگاتا ہے،کیا یہ درست ہے ؟

جواب

اذان و اقامت کے دوران باقاعدہ کچھ الفاظ پکار کر ان کے ذریعہ لوگوں کو نماز کی جانب بلانا یہ درست نہیں ہے۔البتہ اگر اذان کے بعد کوئی شخص گھر گھر جاکر یا گلی محلے میں آواز دے کر لوگوں کو  نماز کے لیے اٹھاتا ہے اور اس عمل کو اذان کا حصہ نہیں سمجھتا تو اس میں قباحت نہیں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں اذان کو ہی نما زکی اطلاع کے لیے کافی سمجھا جاتاتھا، اذان کے بعد نما زکے لیے باقاعدہ دوبارہ کوئی اطلاع نہیں دی جاتی تھی، اور آج کل مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ہوتے ہوئے تقریباً ہر گھر میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے، نیز مؤذن کی یہ ذمہ داری بھی نہیں کہ اذان کے بعد لوگوں کو نماز کے لیے بلاتا پھرے، اس لیے مذکورہ عمل کی عادت ڈالنا مناسب نہیں ہے۔

فتاوی رحیمیہ میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’(الجواب)اصل حکم یہی ہے کہ تثویب(اذان کے بعد اعلان) مکروہ ہے کہ اذان کافی ہے۔ اذان کے بعد اعلان کی ضرورت نہیں رہتی،  بلکہ اس سے اذان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔مگر افسوس کہ خدائی بلاوا  ’’حی علی الصلاۃ ، حی علی الفلاح‘‘ کی مسلمان پروا نہیں کرتے؛  اس لیے بعض علماء نے غافلوں کی تنبیہ کے لیے اجازت دی ہے ۔ مجالس الا برار میں ہے ۔

’’ولظهور التواني في الأمور الدینیة استحسن المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامة في الصلوات کلها سوی المغرب، وهذا العود إلی الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفه کل قوم لأنه مبالغة في الإعلام فلایحصل ذلك إلا بمایتعارفونه‘‘. (مجالس الأبرار، ص: ۲۸۷ مجلس: ۴۸)

کبیریمیں ہے:

’’واستحسن المتأ خرون التثویب وهو العود إلی الإعلام بعد الإعلام یحسب ما تعارفه کل قوم لظهور التواني في الأمور الدینیة‘‘. (ص: ۳۶۱) (نور الإیضاح ص ۶۲ باب الأذان)(الشامية ج ۱ ص ۳۶۱، ص۳۶۲ أیضاً)

بلاشبہ صبح کا وقت غفلت کا وقت ہے، غافلوں کو بیدار کرنے اور نماز باجماعت کا عادی بنانے کے لیے باہمت لوگ جگانے کے لیے نکلتے ہوں تو ان کو روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک ضرورت ہو، یہ عمل جاری رکھاجاسکتا ہے۔ مگر کام سلیقہ سے ہونا چاہیے۔ تماشا نہ بنا لیا جائے اور باعثِ ایذاء مسلمین نہ ہو ، مستورات اور معذورین، مکانوں میں نماز اور ذکر ﷲ میں مشغول ہوں تو ان کا لحاظ رکھا جائے۔ لوگوں کو چاہیے کہ غافلین میں اپنا شمار نہ کرائیں ۔ اورلوگوں کو اٹھانے کی زحمت سے بچائیں۔

 فقط واﷲاعلم بالصواب ۲۷ جمادی الاخریٰ ۱۳۹۷؁ھ‘‘. (5/120)

(امدادالمفتین 2/69-کفایت المفتی 3/55-فتاوی رحیمیہ 5/121)

امدادالاحکام میں ہے :

’’ اذان میں تثویبِ مسنون تو یہ ہے کہ اذان فجر میں’’الصلاۃ خیرمن النوم‘‘ اضافہ کیاجائے،  اور تثویبِ مبتدع ایک تو اذان میں ہے کہ ’’حی علیٰ خیرالعمل‘‘  اضافہ کیاجائے جیسا روافض کرتے ہیں، اور ایک مابین الاذان والاقامۃ ہے کہ موذن تھوڑی دیر میں’’الصلاۃ جامعۃ یا الصلاۃ رحمکم اللہ‘‘  پکارتا ہے، یہ دونوں بدعت ومکروہ ہیں، والأول أشد ابتداعاً وکراهةً". (1/433) 

بہرحال موقع محل دیکھ کر عمل کی گنجائش ہوگی، جیساکہ فتاویٰ رحیمیہ کے حوالے سے واضح ہوا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں