بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار گاڑی خریدنے والے کا رقم دینے سے عاجز ہوکر وہی گاڑی فروخت کرنے والے کو دوبارہ فروخت کرنا


سوال

زید کے پاس موٹر کار تھی جو عمر کو بیچ دی 24 لاکھ روپے پر،  عمر نے زید کو کہا 10 لاکھ نقد دوں گا، باقی14 لاکھ ایک سال بعد دوں گا، اب سال پورا ہو گیا، لیکن عمر نے زید کو 14 لاکھ میں صرف 4 لاکھ روپے دیے 10 لاکھ اب بھی باقی ہیں، اب عمر نے زید سے کہا کہ میں باقی پیسوں کے دینے سے عاجز ہو ں تو زید نے اسے کہا کے بارگین میں موٹر کار کی قیمت معلوم کرو، جتنی قیمت وہ بولے گا، میں آپ سے لے لوں گا تو کیا اب عمر زید کو واپس موٹر کار بیچ سکتا ہے کہ نہیں؟

جواب

ادھار اور قسطوں  پر گاڑی خریدنے کے بعد خریدنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کا ثمن (طے کردہ قیمت) خریدنے والے کے ذمہ دین ہوتا ہے، اگراس گاڑی  کی مکمل مکمل  ادائیگی سے پہلے اگر خریدنے والا اس کے مکمل پیسے ادا کرنے سے عاجز آجائےاور گاڑی فروخت کرنے والے کو دوبارہ یہی گاڑی بیچنا چاہے تو اس کی چند صورتیں ہیں:

(1)  رقم کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والا، گاڑی جتنے میں فروخت کی تھی اس سے کم قیمت پر خرید رہا ہے تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔

(2) خریدار کی رضامندی سے اس گاڑی کو واپس کررہا ہے تو یہ”اقالہ“ ہے، جو  متعاقدین کے حق میں فسخِ بیع ہے ، لہذا جتنے میں فروخت کی تھی اتنے میں ہی واپس کرنا لازم ہوگی۔

(3) رقم کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والا، گاڑی جتنے میں فروخت کی تھی اس سےزیادہ  یا برابر  قیمت پر خرید رہا ہے تو یہ صورت جائز ہے۔

(4) فروخت کرنے والا خلافِ جنس سے اس کو خرید ے، مثلاً گاڑی پیسوں کے بدلے فروخت کی تھی اب واپس کوئی اور چیز دے کر لے تو یہ صورت بھی جائز ہے۔

(5) گاڑی میں کوئی عیب پیدا ہوگیا، یا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس صورت میں اصل قیمت سے کم، زیادہ، اور برابری تینوں صورتوں میں خریدنا جائز ہے۔

جن صورتوں میں فروخت کرنے والے لیے کے گاڑی لیناجائز ہے، ان میں یہ شرط بھی ہے کہ قسطوں پر گاڑی خریدنے والے نے اس پر قبضہ کرلیا ہو، اس لیے کہ منقولی چیز  کی بیع قبضہ سے پہلے جائز نہیں ہے۔

باقی گاڑی کی قیمت کم ہوجانا یہ عیب میں شمار نہیں ہوتا۔ 

اگر گاڑی میں کوئی عیب بھی پیدا نہ ہو ، لیکن مارکیٹ میں اس کی قیمت کم ہوگئی ہو اورخریدنے والا اس کے مکمل پیسے ادا کرنے سے عاجز آجائےاور گاڑی فروخت کرنے والے کو دوبارہ یہی گاڑی بیچنا چاہے تو  چوں کہ فروخت کرنا والا  کم قیمت میں اس کو خرید نہیں سکتا،  اس لیے اس کے متبادل دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں:

(1)   فروخت کرنے والا خلافِ جنس سے اس گاڑی کو  خرید لے، لہذا اگرگاڑی پاکستانی روپے کے بدلے فروخت کی تھی اب واپس خریدتے وقت ڈالر یا ریال یا کسی اور کرنسی میں سودا کرلے۔

(2) ادھار فروخت کرنے والا (زید) اس گاڑی والے (عمر) کو  اتنی رقم قرض دے دے جس سے وہ اپنی ادھار رقم  ادا کردے، پھر  گاڑی کا مالک (عمر) اس قرض سے اپنی باقی رقم مکمل ادا کردے، یوں ایک معاملہ ختم ہوجائے گا، اب پہلے فروخت کرنے والا (زید) اس گاڑی کو واپس خریدلے اور اس کی قیمت میں سے اپنا قرض منہا کرلے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 73):
"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئاً بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافاً للشافعي (وشراء من لاتجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضاً خلافاً لهما في غير عبده ومكاتبه (ولابد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقاً)كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد.

(قوله: وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئاً وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لايجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالاً أو مؤجلاً هداية، وقيد بقوله: وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لايجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول. قال في البحر: وشمل شراء الكل أو البعض. 

(قوله: جاز مطلقاً) أي سواء كان الثمن الثاني أقل من الأول أو لا؛ لأن الربح لايظهر عند اختلاف الجنس. اهـ منح؛ ولأن المبيع لو انتقص يكون النقصان من الثمن في مقابلة ما نقص من العين سواء كان النقصان من الثمن بقدر ما نقص منها أو بأكثر منه بحر عن الفتح (قوله: كما لو شراه إلخ) تشبيه في الجواز مع قطع النظر عن قوله مطلقاً (قوله: بأزيد أو بعد النقد) ومثل الأزيد المساوي كما في الزيلعي، وهذا قول المصنف بالأقل قبل نقد الثمن". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں