ادھار سوداجس میں بیچنے والا وہ چیز ابھی دیتا ہے اور خریدنے والا پیسے بعد میں دیتا ہے، اس میں اگر پیسے لینے دینے کی مدت متعین نہ کی جائے تو جائز ہے کہ نہیں؟ کیوں کہ ہمارے عرف میں تو تقریباً ہر دکان دار سے اپنے شہر والے چیز لیتے ہیں تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ میرے حساب میں اتنے پیسے لکھ دو، یہ تو نہیں بتاتے کہ کب دیں گے، تو کیا اس طرح سودا کرنا جائز نہیں؟
مختلف اشیاء کی ادھار خریدوفروخت میں قیمت کی ادائیگی کی مدت متعین کیے بغیر بھی سودا کرنا جائز ہے، جب کہ خریدوفروخت کے وقت بائع(بیچنے والا) قیمت بتادے یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاملہ ہو، یا اشیا ء کی قیمت کی ادائیگی کے وقت دونوں باہمی اتفاق سے قیمت طے کرلیں، البتہ قیمت کی ادائیگی میں اتنی ہی تاخیر درست ہے جو عرف کے مطابق ہو، بہت زیادہ تاخیر یا ٹال مٹول سے کام لینا جائز نہیں.
واضح رہے کہ سونے چاندی کی خرید وفروخت کا حکم اس سے مختلف ہے کہ اس میں نقد لین دین ضروری ہے، ادھار جائز نہیں. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143802200009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن