بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارے کے لیے قرض لیا جائے تو ادائیگی کس پر ہوگی؟ / قوم پر قرض کی حیثیت


سوال

اگر کسی ادارہ کا کوئی سفیر کسی بینک سے قرضہ لے تو قرضہ کی ادائیگی اُس فرد کے ذمہ ہو گی یا ادارہ کے؟ جیسے کسی تعلیمی ادارہ کے  لیے قرض لیا جائے تو ادائیگی کس کے ذمہ ہو گی، مدیر کے، یا ناظمِ امورِ مالیات کے، یا پورے ادارے کے؟ ایسے ہی اگر حکومت ورلڈ بینک سے قرض لے، تو اُس کی ادائیگی کس کے ذمہ ہے، صدر کے، وزیرِ  اعظم کے، وزیرِ خزانہ کے، یا پوری حکومت کے؟ اگر قرض کچھ افراد کے ذمہ ہو، تو کیا ایسے افراد کو  زکاۃ دی جا سکتی ہے؟ 

جواب

اگر کسی ادارے، محکمہ یا حکومت کا کوئی شخص اپنے ادارے اور محکمہ کے لیے وکیل کی حیثیت سے قرض لیتا ہے تو ادارہ  ہی اس قرض کا دین دار شمار ہو گا، قرض لینے والا مدیون شمار نہیں ہو گا اور  زکاۃ کے باب میں بھی اس کو مقروض نہیں گردانا جائے گا.
نیز حکومت کا قرضہ کسی شخص واحد پر اور ہر باشندے  پر شمار نہیں  ہوتا، بلکہ بیت المال پر ہوتا ہے تو کسی ایک شخص کو اس قرض کے بوجھ تلے دبانا بعید از فہم ہو گا، اور اس طرح ہر ایک کو مقروض تصور کرکے اس کو  زکاۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے مقروض یا کسی اور سبب سے مستحق زکاۃ نہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم

قومی قرضے کی حیثیت اور اس کی بنیاد پر زکاۃ لینے کے عدمِ جواز سے متعلق جامعہ کا تفصیلی فتویٰ دیکھنے کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

ملکی قرضہ کی وجہ سے مقروض عوام پر زکاۃ کا حکم


فتوی نمبر : 144106200372

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں