بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اخلاص اور اس کی علامات


سوال

اخلاص کی نشانی کیاہے اور انسان میں اخلاص کب راسخ ہوتاہے؟  اوراگراخلاص کے موضوع پرکوئی کتاب لکھی گئی ہے تواس کانام بھی بتائیں۔

جواب

’’اخلاص‘‘ کا مطلب ہے: خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیک عمل کرنا۔  یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ماسوا ہر چیز سے براءت کرنا، بایں طور کہ کسی نیک عمل میں دنیاوی فائدہ پیشِ نظر نہ ہو، خواہ وہ دنیاوی فائدہ معمولی ہو یا بڑا ہو، کسی ایسے شخص کو راضی کرنے کی صورت میں ہو جسے راضی کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہ دیا ہو  یا کسی کے خوف سے ہو، دکھاوے کے لیے ہو یا سناوے کے لیے ہو، الغرض! خوفِ خدا و آخرت کو مدنظر رکھ کر عمل کرے، کسی قسم کی دنیاوی منفعت پیشِ نظر نہ ہو۔

اس کی علامت یہ ہے کہ اس نیک عمل کے وقت اگر کوئی اسے دیکھے یا نہ دیکھے، کوئی اسے اس عمل کا حکم دے یا نہ دے، اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب والشہادۃ جانتے ہوئے اس کی رضا اور مسلمانوں کے بھلے کے لیے اس وقت وہ نیک عمل اسی انداز سے کرسکتاہو تو یہ علامت ہوگی کہ یہ عمل اخلاص سے کیا گیا ہے۔ پھر خواہ اس پر اس کی تعریف کی جائے یا نہ کی جائے، خواہ اس تعریف کے بعد اسے خوشی محسوس ہو یا نہ ہو۔ 

اخلاص کے رسوخ و کمال کی علامت یہ ہے کہ محض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کی خاطر نیک عمل (مثلاً کسی دوسرے کی خیرخواہی وغیرہ) کرنے کے بعد اگر لوگ برائی کریں تو لوگوں کی برائی اور مخالفت سے متاثر نہ ہو۔ متاثر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت شریعت کے حکم کا مقتضیٰ کیا ہے؟ اس کو دیکھ کر عمل کرے، اگر شریعت کا تقاضا ہے کہ وہ کام جاری رکھا جائے تو جاری رکھے، اگر شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ اب اس کا ذمہ پورا ہوچکا، اب  چھوڑ دینا چاہیے تو  شرعی حکم کی وجہ سے چھوڑ دے، نہ کہ لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے۔ اور لوگوں کی برائی اور مخالفت کے باوجود اسے یقین ہوکہ اللہ تعالیٰ اسے نیتِ خالص اور نیک عمل پر ضرور اجر دیں گے۔

بعض بزرگوں کا قول ہے کہ اگر نیک کام کرنے کے بعد بھی لوگ برائی کریں تو یہ عمل کی قبولیت اور کمالِ اخلاص کی نشانی ہے، کیوں کہ اس صورت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ بندے کا مکمل اجر اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔  اور کسی نیک عمل پر دنیا میں تعریف معمول سے زیادہ ہو تو (ممکن ہے کہ وہ عمل اخلاص سے ہی ہو، لیکن) کسی درجے میں اس نیک عمل کا بدلہ اور اجر دنیا میں بھی مل جاتاہے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مخلص اپنے عمل پر تعریف سننے کا خواہاں نہیں ہوتا اور جس شخص کے دل میں اخلاص نہیں ہوتا وہ عمل کرنے کے بعد مخلوق سے تعریف سننے کا منتظر رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو مجمع میں عبادت کرنے میں چستی سے کام لیتا ہو جب کہ تنہائی میں عبادت میں سست ہو تو ایسے شخص کا دل بھی اخلاص سے خالی متصور ہو گا۔ اخلاص سے مالا مال شخص کبھی کسی دنیاوی غرض کے لیے کوئی عبادت نہیں کرتا، شہرت  کے حصول کی غرض سے تقریر نہیں کرتا، بلکہ اپنی اور عوام کی اصلاح کی خاطر یہ عمل کرتا ہے۔ 

اخلاص سے متعلق اگر مفصل بحث دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے  لیے مولانا یوسف کاندہلوی رحمہ اللہ کی کتاب منتخب احادیث کو دیکھ لیا جائے، اس کتاب  میں انہوں نے تفصیل سے اس موضوع پر بحث فرمائی ہے۔ یا مشکاۃ المصابیح میں باب الریاء والسمعۃ کا مطالعہ کسی شرح کی روشنی میں کرلیا جائے، ان شاء اللہ اس موضوع پر کفایت ہوجائے گی۔

المفردات في غريب القرآن (ص: 293):
"فحقيقة الإخلاص: التّبرّي عن كلّ ما دون الله تعالى".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں