بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اختلافِ مطالع کا حکم اور وحدت امت


سوال

اختلاف مطالع کے بارے میں بتائیں کہ یہ معتبر ہے یا نہیں؟ گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا اسمبلی میں سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کی قرارداد منظور کی گئی، اس کے بعد  ایک بزرگ عالم دین نے مضمون لکھا کہ ملک میں وحدت قائم کرنے کے لیے یہ کام کرلینا چاہیے؛ کیوں کہ  علماءِ  احناف کا قدیم مذہب یہی ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے،  بعد کے علماء خاص کر علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اختلاف مطالع کو معتبر مانتے ہیں، لہذا علماء کرام کو سر جوڑ کربیٹھنا چاہیے اور قدیم مذہب احناف پر فتویٰ جاری کرکے ملک میں اتحاد کی فضاء قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے. براہ کرم اس بارے میں تفصیلی وضاحت فرمائیں دلائل کے ساتھ!

جواب

واضح رہے کہ اختلاف مطالع کا مسئلہ متقدمین اور متاخرین میں مختلف فیہ  رہا ہے۔اس میں فقہاء کرام کے تین مسلک ہیں:

۱) اختلاف مطالع کا کوئی اعتبارنہیں یعنی بلاد اسلامیہ میں سے کسی ایک بلد کی رویت تمام بلاد اسلامیہ کے لیے معتبر ہے اور  تمام پر  اس کا اعتبار کرتے ہوئے مہینہ کی ابتداء کرنا ضروری ہے۔یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے اور ظاہر الروایت بھی یہی ہے۔

۲)ہر صورت میں اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا یعنی ہر علاقہ کی اپنی رویت ہے اور کسی دوسرے علاقہ کی رویت کا اعتبار کرتے ہوئے مہینہ کی ابتداء اور انتہاء کرنا جائز نہیں ہے۔

۳)بلاد قریبہ میں اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے اور بلاد بعیدہ میں معتبر ہے۔اس قول کو علامہ زیلعی اور صاحب بدائع نے ترجیح دی ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ اور ان کا قول  اس مذہب کی تائید کرتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ  کریب رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ شام میں جمعہ کے دن چاند دیکھ لیا گیا ہے  جب کہ مدینہ میں ہفتہ کے دن دیکھا گیا تھا۔کریب رضی اللہ نے ان سے پوچھا کہ کیا معاویہ رضی اللہ عنہ( جو کہ شام میں تھے)   کی رویت ہمارے لیے معتبر نہیں ہے؟ تو ابن عباس رضی اللہ نے فرمایا کہ ہمیں حضور ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے۔ اسی طرح فتاوی تاتارخانیہ میں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ "عن ابن عباس  رضي الله عنه أنه يعتبر في حق كلّ بلدة روية أهلها." (ترجمہ ہر بلد میں ان کی رویت کا اعتبار ہے)۔

علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے فتح الملہم میں اسی قول کو ترجیح دی ہے ۔علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے بلاد بعیدہ اور قریبہ کا معیار یہ مقرر کیا ہے  جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو کہ اگر ایک کی رویت دوسرے میں معتبر مانی جائے تو دوسرے میں مہینہ اٹھائیس یا اکتیس کا ہوجائے  تو ایسے بلاد بلاد بعیدہ کہلائیں گے اور اختلاف مطالع معتبر ہوگا اور ایک کی رویت پر دوسرا بلد والا مہینہ کی ابتداء  اور انتہاء نہیں کر سکتا۔

مفتی  شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ظاہر الروایت کا محمل یہ بیان کیا ہے  کہ قدیم زمانہ میں بلاد بعیدہ  میں سے ایک کی شہادت دوسرے تک پہنچنا محال اور محض ایک خیال تھا اورایسی فرضی اور خیالی صورتوں سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا جو یہ قول ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے وہ بلاد قریبہ کے ساتھ ہی خاص ہے اور بلاد بعیدہ کے ساتھ اس قول کا تعلق نہیں کیونکہ اس زمانہ میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک بلاد بعیدہ میں سے ایک کی شہادت دوسرے تک پہنچتی۔(ماخوذ فتاوی بینات ج نمبر ۳ ص نمبر ۶۲،مکتبہ بینات)لہذا یہ تیسرا قول ہی راجح ہےاور بلاد قریبہ اور بعیدہ کا حکم الگ الگ ہوگا۔

پس صورتِ  مسئولہ میں پاکستان والوں کے لیے سعودی عرب کی رؤیت کا اعتبار کر کے اسلامی مہینوں کی ابتدا  اور انتہا  کا فیصلہ کرنا شرعًا درست نہیں ہے اور پاکستان والوں کے لیے پاکستان کی روہت ہی معتبر ہے۔

امت کی اتحاد اور وحدت کا مدار رویت کے ایک  ہونے سے نہیں ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہر ملک بلکہ ہر شہر کے نمازوں کے اوقات الگ الگ ہوتے ہیں اور اس اختلاف کو کوئی بھی وحدت کے خلاف نہیں سمجھتا اسی طرح مہینوں کی ابتداء اور ابتہاء بھی الگ الگ ہونا وحدت کے خلاف نہیں ہے۔ نیز جب شریعت مطہرہ نے مہینوں کو چاند کی رویت کے ساتھ جوڑا ہے اور اللہ تعالی نے ہی ہر ملک میں چاند کی پیدائش اور گٹھنے اور بڑھنے کو الگ الگ رکھا ہے تو گویا کہ  مہینوں کی ابتدا  اور انتہا  میں اختلاف  شریعت کے مخالف نہیں،  بلکہ عین مطابق ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه أكثر المشايخ وعليه الفتوى بحر عن الخلاصة.

إنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم، ولا يلزم أحد العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق، فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض، وهو الصحيح عند الشافعية؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة، وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتهما وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث «صوموا لرؤيته» بخلاف أوقات الصلوات، وتمام تقريره في رسالتنا المذكورة."

(کتاب الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۹۳،ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وليس على أهل البلد الآخر قضاؤه لما ذكرنا أن الشهر قد يكون ثلاثين وقد يكون تسعة وعشرين، هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر.

وحكي عن أبي عبد الله بن أبي موسى الضرير أنه استفتي في أهل إسكندرية أن الشمس تغرب بها ومن على منارتها يرى الشمس بعد ذلك بزمان كثير."

(کتاب الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۸۳،دار الکتب العلمیہ)

سنن الترمذي  میں ہے:

"حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر قال: حدثنا محمد بن أبي حرملة قال: أخبرني كريب، أن أم الفضل بنت الحارث، بعثته إلى معاوية بالشام قال: فقدمت الشام، فقضيت حاجتها، واستهل علي هلال رمضان وأنا بالشام، فرأينا الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسألني ابن عباس، ثم ذكر الهلال، فقال: متى رأيتم الهلال، فقلت رأيناه ليلة الجمعة، فقال: أأنت رأيته ليلة الجمعة؟ فقلت: رآه الناس، وصاموا، وصام معاوية، قال: لكن رأيناه ليلة السبت، فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما، أو نراه، فقلت: ألا تكتفي برؤية معاوية وصيامه، قال: لا، هكذا «أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم»: «حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم أن لكل أهل بلد رؤيتهم."

(باب ما جاء لكل أهل بلد رؤيتهم ج نمبر ۳ ص نمبر ۶۷،مطبعہ مصطفی البابی الحلبی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں