بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں؟


سوال

بہشتی زیور میں ایک مسئلہ ایسا ذکر ہے: "ایک شہر والوں  کا چاند دیکھنا دوسرے شہر والوں  پر بھی حجت ہے، ان دونوں شہر والوں  میں کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو حتٰی کہ ابتدا مغرب میں چاند دیکھا جائے اور اس کی خبر معتبر طریقے سے انتہا مشرق کے رہنے والے کو پہنچ جائے تو ان پر اس دن کا روزہ فرض ہوگا"، آیا یہ مسئلہ درست ہے یا غلط ؟

جواب

واضح رہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہونے یا نہ ہونے میں تین قول ہیں ، اختلاف مطالع معتبر  نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جگہ چاند دیکھا گیا تو وہ رؤیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کافی ہے، سب اس رؤیت کی بنا پر روزہ رکھیں گے یا افطار کریں گے، اختلاف مطالع معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جگہ چاند نظر آجائے تو وہ رؤیت سب کے لیے کافی نہیں، بلکہ ہر مطلع کی اپنی رؤیت کی بنا پر رمضان کے روزے کی ابتدا یا عید الفطر کا اعلان ہوگا، اس سلسلے میں اقوال درج ذیل ہیں:

پہلا قول:اختلاف مطالع کا کسی بھی  حال میں اعتبار نہیں ہےیعنی دنیا کے  ایک کونے میں چاند نظر آنے پر دوسرے کونے والوں پر بھی روزے رکھنا ، عید منانا لازم ہوگا،  یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہےاوراسے ظاہر الروایہ بھی کہا گیا ہے۔

الدر المختار میں ہے:

(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه أكثر المشايخ وعليه الفتوى بحر عن الخلاصة (فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب كما مر، وقال الزيلعي: الأشبه أنه يعتبر لكن قال الكمال: الأخذ بظاهر الرواية أحوط.

فتاوی شامی میں ہے:

اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه بمعنى أنه قد يكون بين البلدتين بعد بحيث يطلع الهلال له ليلة كذا في إحدى البلدتين دون الأخرى وكذا مطالع الشمس؛ لأن انفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار حتى إذا زالت الشمس في المشرق لا يلزم أن تزول في المغرب، وكذا طلوع الفجر وغروب الشمس بل كلما تحركت الشمس درجة فتلك طلوع فجر لقوم وطلوع شمس لآخرين وغروب لبعض ونصف ليل لغيرهم كما في الزيلعي وقدر البعد الذي تختلف فيه المطالع مسيرة شهر فأكثر على ما في القهستاني عن الجواهر اعتبارا بقصة سليمان - عليه السلام -، فإنه قد انتقل كل غدو ورواح من إقليم إلى إقليم وبينهما شهر.

ولا يخفى ما في هذا الاستدلال وفي شرح المنهاج للرملي وقد نبه التاج التبريزي على أن اختلاف المطالع لا يمكن في أقل من أربعة وعشرين فرسخا وأفتى به الوالد والأوجه أنها تحديدية كما أفتى به أيضا اهـ فليحفظ وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم، ولا يلزم أحد العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق، فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض، وهو الصحيح عند الشافعية؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة، وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتهما وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث «صوموا لرؤيته» بخلاف أوقات الصلوات۔

(کتاب الصوم،مطلب فی اختلاف المطالع،ج:2،ص:393،ط:سعید)

دوسرا قول:اختلاف مطالع کا ہر صورت میں اعتبار ہے یعنی ہر شہر میں الگ چاند دیکھنا ضروری ہے۔

تیسرا قول :بلاد قریبہ (قریب قریب شہروں) میں تو اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے،  لیکن بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے،یعنی آس پاس کے شہر میں چاند دیکھنا کافی ہے، لیکن دور کے شہر والوں کا چاند دیکھنا کافی نہیں ہے ،بلکہ یہاں الگ سے چاند نظر آئے تب ہی روزہ رکھا جائے گا،یہ متاخرین احناف کا قول ہے، پانچ سو میل کے بعد مطلع مختلف ہوسکتا  ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

( ولا عبرة باختلاف المطالع ) وقيل يعتبر ومعناه أنه إذا رأى الهلال أهل بلد ولم يره أهل بلدة أخرى يجب أن يصوموا برؤية أولئك كيفما كان على قول من قال لا عبرة باختلاف المطالع وعلى قول من اعتبره ينظر فإن كان بينهما تقارب بحيث لا تختلف المطالع يجب وإن كان بحيث تختلف لا يجب وأكثر المشايخ على أنه لا يعتبر حتى إذا صام أهل بلدة ثلاثين يوما وأهل بلدة أخرى تسعة وعشرين يوما يجب عليهم قضاء يوم والأشبه أن يعتبر لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم·(کتاب الصوم،ج:1،ص:321،ط:مکتبه امداديه،ملتان)

معارف السنن میں ہے:

و حققوا اوقوع الاختلاف في المطلع بنحو خمسمائة ميل·

(معارف السنن ، كتاب الصوم ۵/ ۳۴۳ ط: مجلس الدعوة و التحقيق)

بہشتی زیور میں ذکر کردہ  مسئلہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ہے، لہذا اس مسئلہ کا بیان امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کے مطابق درست ہے،البتہ جمہور محققین علماء کرام تیسرے قول کو راجح قرار دیتے ہیں، اور اکابر دیوبند میں سے مولانا انور شاہ کشمیری،مولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا مفتی محمد شفیع،مولانا محمد یوسف بنوری رحمہم اللہ وغیرہ اختلاف مطالع کو معتبر مانتے ہیں ،اور اسی پر فتوی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر

(کتاب الصوم،فصل واما شرائطها،ج:2،ص:83،ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

وفی الظهيرة وعن ابن عباس انہ یعتبر فی حق کل بلدۃ رؤیة اهلها۔ وفی القدوری اذا کان بین البلدتین تفاوت لایختلف المطالع لزم حکم اهل احدی البلدتین البلدۃ الاخریٰ، فاما اذا کان تفاوت یختلف المطالع لم یلزم حکم احدی البلدتین البللدۃ الاخریٰ۔(کتاب الصوم، الفصل الثانی رؤية الهلال،ج:3،ص:365،ط:مکتبه زکریا،دیوبند)

حدثنا علي بن حجر حدثنا إسماعيل بن جعفر حدثنا محمد بن أبي حرملة أخبرني كريب : أن أم الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام قال فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل على هلال رمضان وأنا بالشام فرأينا الهلال ليلة الجمعة ثم قدمت المدينة في آخر الشهر فسألني ابن عباس ثم ذكر الهلال فقال متى رأيتم الهلال ؟ فقلت رأيناه ليلة الجمعة فقال أأنت رأيته ليلة الجمعة ؟ فقلت رآه الناس وصاموا وصام معاوية قال لكن رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما أو نراه فقلت ألا تكتفي برؤية معاوية وصيامه ؟ قال لا هكذا أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم

سنن ترمذی میں ہے:

قال أبو عيسى حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم أن لكل أهل بلد رؤيتهم(کتاب الصوم،باب ماجاء لکل أهل بلد رؤیتهم،ج:1،ص:148،ط:قدیمی کتب خانه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں