بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احناف کے علاوہ دیگر ائمہ کے نزدیک نوافل باجماعت ادا کرنے کا حکم


سوال

 امام مالک ،امام  شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک نفل نماز با جماعت پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔ نفل نماز جماعت سے ادا کرنے کے حوالہ سے مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ نفل میں اصل یہ ہے کہ انفرادی طور پر ادا کی جائے; لہذا جماعتِ کثیرہ کے ساتھ مشہور مقام پر با جماعت نوافل ادا کرنا مکروہ ہے، تاہم غیر مشہور مقام پر با جماعت نفل ادا کرنا مکروہ نہیں، البتہ انفرادی ادا کرنا افضل ہے، جیساکہ مذہبِ مالکیہ کہ مشہور کتاب "شرح الصغير" میں ہے:

’’(وَ) كُرِهَ (جَمْعٌ كَثِيرٌ لِنَفْلٍ) : أَيْ صَلَاتِهِ فِي جَمَاعَةٍ كَثِيرَةٍ فِي غَيْرِ التَّرَاوِيحِ وَلَوْبِمَكَانٍ غَيْرِ مَشْهُورٍ؛ لِأَنَّ شَأْنَ النَّفْلِ الِانْفِرَادُ بِهِ. (أَوْ) صَلَاتُهُ فِي جَمَاعَةٍ قَلِيلَةٍ (بِمَكَانٍ مُشْتَهَرٍ) بَيْنَ النَّاسِ (وَإِلَّا) تَكُنْ الْجَمَاعَةُ كَثِيرَةً - بَلْ قَلِيلَةً كَالِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ - وَلَمْ يَكُنْ الْمَكَانُ مُشْتَهَرًا (فَلَا) يُكْرَهُ‘‘.

حاشية الصاوي علی شرح الصغيرمیں ہے:

’’قَوْلُهُ: [فِي غَيْرِ التَّرَاوِيحِ] : وَمِنْ الْغَيْرِ الشَّفْعُ وَالْوَتْرُ، فَالْأَفْضَلُ الِانْفِرَادُ فِيهِمَا‘‘. (١/ ٤١٤)

2۔ باجماعت نوافل ادا کرنے کے حوالہ سے شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ جن نوافل میں جماعت کرنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ان کے علاوہ دیگر نوافل با جماعت ادا کرنا جائز تو ہے لیکن مستحب نہیں، انفرادی طور پر ہی ادا کرنی چاہییں۔جیساکہ ’’المجموع شرح المهذب للنووي‘‘ میں ہے:

’’قَدْسَبَقَ أَنَّ النَّوَافِلَ لَا تُشْرَعُ الْجَمَاعَةُ فِيهَا إلَّافِي الْعِيدَيْنِ وَالْكُسُوفَيْنِ وَالِاسْتِسْقَاءِ وَكَذَا التَّرَاوِيحُ وَالْوِتْرُ بَعْدَهَا إذَا قُلْنَا بِالْأَصَحِّ إنَّ الْجَمَاعَةَ فِيهَا أَفْضَلُ وَأَمَّا بَاقِي النَّوَافِلِ كَالسُّنَنِ الرَّاتِبَةِ مَعَ الْفَرَائِضِ وَالضُّحَى وَالنَّوَافِلِ الْمُطْلَقَةِ فَلَا تُشْرَعُ فِيهَا الْجَمَاعَةُ أَيْ لَا تُسْتَحَبُّ لَكِنْ لَوْ صَلَّاهَا جَمَاعَةً جَازَ، وَلَايُقَالُ: إنَّهُ مَكْرُوهٌ، وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي مُخْتَصَرَيْ الْبُوَيْطِيِّ وَالرَّبِيعِ عَلَى أَنَّهُ لَابَأْسَ بِالْجَمَاعَةِ فِي النَّافِلَةِ، وَدَلِيلُ جَوَازِهَا جَمَاعَةُ أَحَادِيثَ كَثِيرَةٍ فِي الصَّحِيحِ مِنْهَا حديث عتبان ابن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم جاءه في بيته بعد ما اشْتَدَّ النَّهَارُ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ فَأَشَرْتُ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ وَصَفَّنَا خَلْفَهُ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ " رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ. وَثَبَتَتْ الْجَمَاعَةُ فِي النَّافِلَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَحُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَأَحَادِيثُهُمْ كُلُّهَا فِي الصَّحِيحَيْنِ إلَّا حَدِيثَ حُذَيْفَةَ فَفِي مُسْلِمٍ، فَقَطْ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘. (٤/ ٥٥)

3۔ حنابلہ کے نزدیک نوافل با جماعت ادا کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقوں سے نوافل ادا کرنا ثابت ہے، اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر نوافل تنہا ہی ادا کرتے تھے، جیسا کہ "المغني" للإمام ابن قدامة الحنبلي میں ہے:

’’يجوز التطوع جماعة وفرادى ؛ { لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعل الأمرين كليهما، وكان أكثر تطوعه منفرداً، وصلى بحذيفة مرةً، وبابن عباس مرةً، وبأنس وأمه واليتيم مرةً، وأم أصحابه في بيت عتبان مرة، وأمهم في ليالي رمضان ثلاثاً}، والآثار فيها كلها صحاح جياد‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں