بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احناف نابالغ کی امامت کے جواز کے قائل کیوں نہیں ہیں ؟


سوال

احناف نابالغ کی امامت کے جواز کے قائل کیوں نہیں ہیں؟  براہِ کرم دلیل سے اس بات کو واضح فرمادیں؟

اور درج ذیل عبارت کا جواب بھی جو کہ ایک ویب سائٹ  سے لیا گیا ہے:

"عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے ،جب میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو" تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے"تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو"،  تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا ،تخریج الحدیث:حدیث رقم: 637 :ابوداؤد کی روایت میں 7سال کا ذکر ہے، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کر سکتا ہے، اس لیے کہ "یؤم القوم أقرهم لکتاب الله"کے عموم میں صبی ممیز (باشعور بچہ) بھی داخل ہے، اور کتاب و سنت میں کوئی بھی نص ایسا نہیں جو اس سے متعارض و متصادم ہو، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے ،اس لیے کہ نزولِ وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے۔"

جواب

فقہائے احناف ؒکے ہاں مفتیٰ بہ قول کے    مطابق، نابالغ بچے کا بالغ افراد  کو امامت کروانا درست نہیں ہے، اور یہی قول جمہور حنابلہؒ ومالکیہ ؒکا بھی ہے، اور امام شافعی ؒ کے نزدیک بھی اولیٰ یہی ہے کہ بالغین کو بالغ ہی نماز پڑھائے، البتہ اگر کوئی نابالغ پڑھا لے تو اُن کے نزدیک نماز ہوجاتی ہے۔

جمہور فقہائے کرام ؒ کے دلائل درج ذیل ہیں:

(۱) متعدد کبار صحابہ ؓ وتابعین ؒ کے آثار اس بارے میں مروی ہیں کہ نابالغ کی امامت درست نہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’بچہ امامت نہ کرے یہاں تک کہ بالغ ہوجائے، اور تم میں سے بہترین لوگ اذان دیا کریں۔‘‘، اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’وہ بچہ امامت نہ کرائے جس پر حدود واجب نہیں ہوئیں۔‘‘، نیز حضرت عطاء بن ابی رباحؒ اور حضرت عمربن عبدالعزیزؒ سے مروی ہے کہ ’’بچہ بالغ ہونے سے پہلے امام نہ بنے، نہ فرض نماز میں اور نہ نفل نماز میں‘‘۔

(۲) خلفائے راشدین اور کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کا یہی عمل رہا ہے۔

(۳) نابالغ چوں کہ مکلف نہیں ہوتا، اس لیے اُس کی نماز نفل کے درجے میں ہوتی ہے، لہٰذا بالغ کا فرض نماز اُس کے پیچھے پڑھنا درست نہیں؛ کیوں کہ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے، اور یہ بات بدیہی ہے کہ کوئی چیز اپنے سے نیچے والی چیز کو متضمن ہوتی ہے نہ کہ اپنے سے اوپر والی کو، لہٰذا نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے، نیز بالغ کا نابالغ کے پیچھے نفل نماز پڑھنا بھی احناف کے مختار قول کے مطابق جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ نابالغ کی نفل نماز بھی بالغ کی نفل نماز کے برابر نہیں ہوتی؛  کیوں کہ بالغ کی نفل نماز شروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہے، اور اگر وہ اس کو توڑ دے تو اُس پر قضا لازم ہوتی ہے، جب کہ نابالغ کی نفل شروع کرنے سے واجب نہیں ہوتی اور وہ اسے توڑدے تو قضا بھی واجب نہیں ہوتی؛ کیوں کہ وہ ابھی غیرمکلف ہے۔

(۴) نابالغ بچہ طہارت اور نماز کے مسائل سے کما حقہ واقف نہیں ہوتا، اور وہ اس میں متساہل بھی ہوتا ہے، لہٰذا اُسے امام بنانے کی صورت میں بالغوں کی نماز کے فساد کا اندیشہ غالب ہے۔

 باقی جو عبارت سوال میں درج کی گئی ہے وہ کئی وجوہ سے درست نہیں، اول تو مذکورہ عبارت میں  حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی جس حدیث سے نابالغ کی امامت کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے، اُس حدیث پر امام احمد بن حنبلؒ نے جرح فرمائی ہے، اور اُسے ضعیف قرار دیا ہے، نیز فرمایا ہے کہ یہ حدیث ابتدائے اسلام کی ہے، اُس وقت ضرورت کی بناء پر یہ حکم تھا، بعد میں اس پر عمل نہیں رہا۔ اس کے علاوہ مذکورہ عبارت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ "اس لیے کہ "یؤم القوم أقرأهم لکتاب الله"کے عموم میں صبی ممیز (باشعور بچہ) بھی داخل ہے"، یہ استدلال بھی درست نہیں؛ کیوں کہ "يؤم القوم أقرأهم لكتاب الله" تو مطلق ہے، اس کے عموم کا تقاضہ تو یہ ہے کہ بالغ نابالغ، ممیز غیر ممیز سب کو شامل  ہو، لہٰذا غیر ممیز  بچے کی بھی، جسےدوسروں سے زیادہ  قرآن یاد ہو، امامت درست ہونی چاہیے، حالاں کہ مذکورہ استدلال کرنے والے خود اس کے قائل نہیں، اور وہ اس کے عموم سے صبی ممیز کی تخصیص کرتے ہیں، تو وہ جس دلیل سے "يؤم القوم أقرأهم"  کے عموم سے صبی ممیز کو خاص کرتے ہیں، اسی دلیل سے   اس کے عموم سے بالغ کو خاص کیا گیا ہے۔

نیز مذکورہ اقتباس میں یہ عبارت "اور کتاب و سنت میں کوئی بھی نص ایسا نہیں جو اس سے متعارض و متصادم ہو"، بھی درست نہیں؛ کیوں کہ  متعدد آثارِ صحابہ وتابعین، اس حدیث کے معارض ہیں، اور کبار صحابہ کرام وخلفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین کا عمل بھی اس کے خلاف کا مؤید ہے، اور صحابہ کرام ؓ کا عمل اور اُن کے آثار سنت میں داخل ہیں۔

لہٰذا اس مسئلے میں احناف ؒکا مسلک  ہی روایۃً ودرایۃً راجح ہے، اور یہی مسلک جمہور فقہائے کرام ؒ کا بھی ہے۔

المصنف - عبد الرزاق میں ہے:

" عبد الرزاق، عن الأسلمي، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: «‌لا ‌يؤم ‌الغلام حتى يحتلم، وليؤذن لكم خياركم".

(‌‌باب فضل الأذان،٤٨٧/١،ط : المجلس العلمي)

المصنف - ابن أبي شيبة میں ہے:

" حدثنا إسماعيل بن عياش عن ابن جريج عن عطاء و (عمر) بن عبد العزيز قالا: ‌لا ‌يؤم (‌الغلام قبل أن يحتلم) في الفريضة ولا (في) غيرها".

(في إمامة الغلام قبل أن يحتلم،٢٦٨/٣،ط : دار كنوز)

المهذب في اختصار السنن الكبير میں ہے:

" يحيى بن آدم، عن ابن أبي يحيى، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: "‌لا ‌يؤم ‌الغلام حتى يحتلم".

(‌‌كتاب صلاة التطوع وقيام رمضان فرضية الخمس فقط،١١٥٥/٣،ط : دار الوطن للنشر)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن عمرو بن سلمة قال: كنا بماء ممر الناس وكان يمر بنا الركبان نسألهم ما للناس ما للناس؟ ما هذا الرجل فيقولون يزعم أن الله أرسله أوحى إليه أو أوحى الله كذا. فكنت أحفظ ذلك الكلام فكأنما يغرى في صدري وكانت العرب تلوم بإسلامهم الفتح فيقولون اتركوه وقومه فإنه إن ظهر عليهم فهو نبي صادق فلما كانت وقعة الفتح بادر كل قوم بإسلامهم وبدر أبي قومي بإسلامهم فلما قدم قال جئتكم والله من عند النبي حقا فقال: «صلوا صلاة كذا في حين كذا وصلوا صلاة كذا في حين كذا فإذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم وليؤمكم أكثركم قرآنا» فنظروا فلم يكن أحد أكثر قرآنا مني لما كنت أتلقى من الركبان فقدموني بين أيديهم وأنا ابن ست أو سبع سنين وكانت علي بردة كنت إذا سجدت تقلصت عني فقالت امرأة من الحي ألا تغطون عنا است قارئكم فاشتروا ‌فقطعوا ‌لي ‌قميصا فما فرحت بشيء فرحي بذلك القميص. رواه البخاري".

(‌‌باب الإمامة،الفصل الثالث،٣٥٢/١،ط : المكتب الإسلامي)

اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاریٰ ؒ فرماتے ہیں:

"وفي الحديث دليل ‌على ‌جواز ‌إمامة ‌الصبي، وبه قال الشافعي، وعنه في الجمعة قولان، وقال مالك، وأحمد: لا يجوز. وكذا قال أبو حنيفة. واختلف أصحابه في النفل فجوزه مشايخ بلخ، وعليه العمل عندهم وبمصر والشام ومنعه غيرهم وعليه العمل بما وراء النهر، انتهى ... قال الزيلعي في شرحه للكنز: استدل الشافعي على أن الاقتداء بالصبي جائز بقول عمرو بن سلمة: فقدموني إلخ. وعندنا لا يجوز ; لقول ابن مسعود: لا يؤم الغلام الذي لا يجب عليه الحدود، وقول ابن عباس: لا يؤم الغلام حتى يحتلم. ولأنه متنفل، فلا يجوز أن يقتدي به المفترض على ما عرف في موضعه، وأما إمامة عمرو فليس بمسموع من النبي صلى الله عليه وسلم، وإنما قدموه باجتهاد منهم لما كان يتلقى من الركبان، فكيف يستدل بفعل الصبي على الجواز، وقد قال هو بنفسه وكانت علي بردة إلخ. والعجب من الشافعية أنهم لم يجعلوا قول أبي بكر الصديق وعمر الفاروق وغيرهم من كبار الصحابة حجة، واستدلوا بفعل صبي مثل هذا حاله".

‌‌[باب الإمامة،٨٠٧/٣،ط : دار الفكر]

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

" ويفهم أن البخاري يجوز إمامته، وهو مذهب الشافعي أيضا، ومذهب أبي حنيفة: أن المكتوبة لا تصح خلفه، وبه قال أحمد وإسحاق، وقال داود: في النفل روايتان عن أبي حنيفة، وبالجواز في النفل قال أحمد وإسحاق، وقال داود: لا تصح فيما حكاه ابن أبي شيبة عن الشعبي ومجاهد وعمر بن عبد العزيز وعطاء، وأما نقله: ابن المنذر عن أبي حنيفة وصاحبيه أنها مكروهة فلا يصح هذا النقل، وعند الشافعي في الجمعة قولان، وفي غيرها يجوز لحديث عمرو بن سلمة الذي فيه: أؤمهم وأنا ابن سبع أو ثمان سنين، وعن الخطابي أن أحمد كان يضعف هذا الحديث، وعن ابن عباس: ‌لا ‌يؤم ‌الغلام حتى يحتلم، وذكر الأثرم بسند له عن ابن مسعود أنه قال: ‌لا ‌يؤم ‌الغلام حتى تجب عليه الحدود، وعن إبراهيم: لا بأس أن يؤم الغلام قبل أن يحتلم في رمضان، وعن الحسن مثله ولم يقيده".

(باب إمامة العبد والمولى،٢٢٦/٥،ط : دار إحياء التراث العربي)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے:

"قال الحافظ في "الفتح": وفي الحديث حجة للشافعية في ‌إمامة ‌الصبي المميز في الفريضة، وهي خلافية مشهورة، ولم ينصف من قال: فعلوا ذلك باجتهادهم، ولم يطلع النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك، لأنها شهادة نفي، ولأن زمن الوحي لا يقع التقرير فيه على ما لا يجوز، كما استدل أبو سعيد وجابر لجواز العزل بكونهم فعلوه على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولو كان منهيا عنه لنهي عنه في القرآن، وكذا من استدل به بأن ستر العورة في الصلاة ليس شرطا لصحتها بل هو سنة، ويجزئ بدون ذلك لأنها واقعة حال، فيحتمل أن يكون ذلك بعد علمهم بالحكم.

قال العيني في "شرح الهداية": وأما الصبي فلأنه متنفل فلا يجوز اقتداء المفترض به أي بالمتنفل، لأن صلاة الإمام متضمنة صلاة المقتدي صحة وفسادا لقوله عليه السلام: "الإمام ضامن"، ولا شك أن الشيء يتضمن ما هو دونه لا ما هو فوقه، فلم يجز اقتداء البالغ بالصبي لهذا، وبه قال الأوزاعي والثوري ومالك وأحمد وإسحاق، وفي النفل روايتان، وقال ابن المنذر: وكرهها عطاء والشعبي ومجاهد، وقال الحسن والشافعي".

(باب: من أحق بالإمامة،٤٥٧/٣،ط : الدراسات الإسلامية)

معرفة السنن والآثار میں ہے:

"احتج في كتاب البويطي: في جواز إمامته، وإن كان الاختيار ألا يؤم إلا بالغ بحديث عمرو بن سلمة الجرمي، مر بنا ركب وأنا غلام، وكان يؤم قومه وبحديث معاذ بن جبل حين كان يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يصليها بقومه نافلة، وأقل ما في صلاة الغلام أن تكون نافلة".

(‌‌إمامة الصبي الذي لم يبلغ،١٦٦/٤،ط : جامعة الدراسات الإسلامية)

الجامع لعلوم الإمام أحمد میں ہے:

قال أبو داود: سمعت أحمد بن حنبل يقول: ‌لا ‌يؤم ‌الغلام حتى يحتلم. فقيل لأحمد: حديث عمرو بن سلمة؟ قال: لا أدري، أي شيء هذا... وسمعته مرة أخرى وذكر هذا الحديث، فقال: لعله كان في بدء الإسلام".

(مراتب الأئمة،٣٣٩/٦،ط : دار الفلاح)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما شروط الإمامة فقد عدها في نور الإيضاح على حدة، فقال: وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة."

(کتاب الصلاة،باب الإمامة،٥٥٠/١،ط: سعيد)

الأم للشافعي رحمه الله تعالى میں ہے:

"(قال: الشافعي -رحمه الله تعالى-): إذا أم الغلام الذي لم يبلغ الذي يعقل الصلاة ويقرأ الرجال البالغين، فإذا أقام الصلاة أجزأتهم إمامته والاختيار أن لا يؤم إلا بالغ، وأن يكون الإمام البالغ عالما بما لعله يعرض له في الصلاة".

(‌‌إمامة الصبي لم يبلغ،١٩٣/١،ط: دار الفكر) 

منحة العلام في شرح بلوغ المرام میں ہے:

" الحديث دليل على صحة ‌إمامة ‌الصبي في صلاة الفرض إذا كان أهلاً لذلك بقراءته وعلمه وتميزه، فيؤم غيره وإن كانوا كباراً وإن كانوا شيوخاً؛ لأن هؤلاء الصحابة رضي الله عنهم قدموا عمرو بن سلمة وعمره ست أو سبع سنين ولو كانت إمامته غير جائزة لنزل الوحي بإنكار ذلك، لا سيما في الصلاة التي هي أعظم أركان الإسلام، وهذا قول الشافعي ورواية عن الإمام أحمد.

والقول الثاني: أن إمامته لا تصح، وهو قول الجمهور من الحنفية والمالكية والحنابلة، وهو قول ابن حزم الظاهري، واستدلوا بحديث أبي هريرة المتقدم بلفظ البخاري: «إنما جُعِلَ الإمام ليؤتمَّ به فلا تختلفوا عليه … » قالوا: وصلاة الصبي نفل، فصلاة البالغ خلفه الفرض اختلاف على الإمام".

(‌‌حكم ائتمام البالغ بالصبي،٣٩٨/٣،ط : دار ابن الجوزي)

فتح باب العناية بشرح النقاية   میں ہے:

"وأما ‌إمامة ‌الصبي فقال بعضهم: يجوز اقتداء البالغ بالصبي في التراويح والنوافل المطلقة، لأن كلا منهما نفل في ذاته. واللزوم بعارض الشروع لا يخرجه عن أصل وضعه. والمختار: عدم الجواز. لأن نفل البالغ مضمون ويجب قضاؤه بإفساده، ونفل الصبي غير مضمون، لا يجب قضاؤه بإفساده، فكان نفل البالغ أقوى من نفل الصبي. ولو اقتدى صبي بصبي جاز لأن الصلاة متحدة".

‌‌[فصل في صلاة الجماعة،٢٧٨/١،ط : دار الأرقم بن أبي الأرقم]

فتای محمودیہ میں ہے:

"سوال: (٣٣٨٨٨) نابالغ کے پیچھے تراویح بقول معتبر بروئے مذہب حنفی جائز ہے یا مکروہ؟

"الجواب :مختار قول کی بناء پر مذہبِ  حنفیہ میں نابالغ لڑکے کو بالغین کا امام بنانا جائز نہیں ہے"(‌ولا ‌يصح ‌اقتداء ‌رجل ‌بامرأة) وخنثى (وصبي مطلقا)ولو في جنازة ونفل على الاصح

(کتاب الصلوٰۃ، باب التراویح،274/7،ط: الفاروقیہ )

امدادالفتاویٰ  میں ہے:

"روایتِ اولیٰ میں تصریح ہے کہ باوجود اختلاف کے ترجیح عدمِ جواز کو ہے ۔۔۔ اصل یہ ہے کہ احکام کی بناء دلائل پر ہے مصالح پر نہیں، علاوہ اس کے یہ ہے کہ صبی میں ان مصالح کے ساتھ مفاسد بھی ہیں کہ اکثر وہ احکامِ طہارت وصلوٰۃ سے ناواقف اور متساہل بھی ہوتے ہیں، پس اس کی تجویز میں بالغین کی نمازوں کا فساد بہت غالب ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ١/ ٢٩٤، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144508100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں