بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجنبی مرد سے مصافحہ اور دیور سے پردہ کا حکم


سوال

1- میں شادی شدہ ہوں ، جناب ہمارے گھر میں ہمارے چچا زاد بھائی آتے ہیں تو  کیا میری بیوی کا ان  سے ہاتھ ملانا جائز ہے یا نہیں؟ کیوں کہ اگر میری بیوی اس سے ہاتھ نہیں ملاتی تو یہ ہماری  فیملی میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے؛ لہٰذا اس پر دینِ اسلام کیا کہتا ہے؟

2- دیور اور بھابھی کا تعلق کیسا ہونا چاہیے؟  دیور بھابھی کیا ایک دوسرے سے بات کرسکتے ہی؟ ہاتھ ملا سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

1۔ آپ کے  چچازاد  بھائی  اگر آپ  کی بیوی کے محارم میں سے نہیں ہیں تو  آپ کی بیوی  کے لیے ان سے ہاتھ ملانا جائز نہیں ہے، نامحرم سے ہاتھ  ملانا سخت گناہ ہے، حدیثِ پاک میں اس پر وعید آئی ہے، شریعت کی اتباع اور شرعی احکامات کی تابع داری میں مخلوق کی رضامندی و ناراضی  کا لحاظ نہیں رکھنا چاہیے،  شرعی حکم کی اتباع لازم ہے اور اگر اس کی وجہ سے کوئی ناراض ہوتاہے تو  اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، البتہ ایسے لوگوں کو نرمی اور حکمت کے ساتھ شریعت کے احکامات سے آگاہ کرنا چاہیے۔

طبرانی میں بروایت حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:

’’اپنے سر کو لوہے کے  کنگھے سے زخمی کرنا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے‘‘۔

"عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأن يُطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لاتحلّ له." رواه الطبراني". (صحيح الجامع 5045)

بخاری شریف کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین کا سورہ تحریم کی آیت کے مطابق امتحان لیتے، ( کہ وہ کہیں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور مقصد سے تو ہجرت کرکے نہیں آئیں) جب وہ امتحان پر پوری اتر آتیں تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے کہ میں نے تمہیں زبانی بیعت کرلی ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بخدا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں بھی کسی خاتون کو ہاتھ نہیں لگایا۔

صحیح بخاری کی روایت  میں ہے  کہ "مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا"،  یعنی آپ ﷺ کے دستِ مبارک نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں ہے۔

صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی نے کسی عورت (نا محرم) کی ہتھیلی کو نہیں پکڑا۔ (صحیح مسلم 3470)

2۔  جو حکم دیگر نامحرموں سے پردہ کا ہے وہی  حکم دیور کا بھی ہے، دیور سے بھی ہاتھ ملانا جائز نہیں ہے،  نبی کریم ﷺ سے جب دیور (وغیرہ) سے پردہ کا حکم دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے  دیور کو موت سے تعبیر فرمایا۔ (صحیح مسلم، باب التحریم الخلوۃ بالاجنبیہ والدخول، ج: ۷، ص: ۷، ط: دار الجیل بیروت  وغیرھا من کتب الاحادیث) یعنی موت سے جتنا ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دیور اور جیٹھ وغیرہ سے  بھی ہے، خصوصاً جب کہ رہائش بھی ساتھ ہی ہو۔ ایسے مواقع پر پردہ کاحکم ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید احتیاط کا متقاضی ہوجاتا ہے۔

البتہ  مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے  پردے کی  صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی چادر جس سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہو  اوڑھ کر گھر کے کام کاج کرلے۔  بلا ضرورت دیور سے بات چیت نہ کی جائے۔  اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو  آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔   خلوت میں یا  پاس بیٹھنے  کی  یا ہنسی مذاق  کرنے کی  شرعاً اجازت   نہیں۔ نیزکبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی  بیٹھے  ہوں تو خواتین کو چاہیے کہ ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں تاکہ اختلاط نہ ہو۔

مشترکہ رہائش کی صورت میں گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں