بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتہاد کی جائز و ناجائز صورت


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں آجکل جدید مذھبی اسکالر اجتھاد اجتھاد کی رٹ لگائے ھوئے ہیں اور علماء پر طعن و تشنیع کرتے پیں کہ یہ لوگ اجتھاد سے منع کرتے ہیں تو آپ حضرات میں یہ سوال ھے کیا اس دور میں اجتھاد کی ضرورت ہے ،اور اجتھاد کے لئے کن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ،کیا کوئی شخص خود کسی مسئلے پر تحقیق کرکے کوئی الگ رائے اختیار کرسکتا ھے ؟

جواب

اجتہاد ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں اور ان صورتوں کی الگ الگ کڑی  شرائط ہیں جو اصول فقہ وافتا کی کتب میں مفصل درج ہیں، جن کا یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔مختصرا یہ کہ اجتہاد کی بعض صورتوں کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور یہ صورتیں ہمیشہ سے قابل عمل رہی ہیں، نت نئے مسائل کے شرعی احکام کی نصوص، اجماع  اور قیاس سے دریافت اجتہاد ہی کی ایک صورت ہے جو امت کے سرکردہ اہل علم وفقہ افراد کرتے آئے ہیں، جب کہ ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے اجتہاد ہی کی بعض دیگر صورتیں  قابل عمل نہیں ہیں، اجتہاد کی ان صورتوں کو قابل عمل بنانے یا ایسے اجتہاد کی دعوت دینے کے نتائج دین اسلام کے مسلمات میں تشکیک پیدا کرنے، سلف صالح پر تنقید  کرنے اور امت کے پچھلے لوگوں کو گمراہ قرار دینے وغیرہ کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں (بل کہ ہورہے ہیں)، اور یہ نتائج کئی ایک پہلووں سے امت کی علمی وعملی بنیاد اور ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ  ہیں۔  غفلت یا جہالت یا فتنہ انگیزی کی خاطر  اگر کوئی شخص اس دوسری صورت کے اجتہاد کی دعوت دیتا ہے تو ایسی دعوت پر کان دھرنے کی بجائے اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ہر گلی محلے کا نوجوان  اور بوڑھا اٹھ کر اپنی تئیں مجتہد ہونے کا دعوے دار بن کر اجتہاد کرنے لگ جائے تو ایسا اجتہاد اہم دینی فریضہ نہیں ہو گا، ایک کھیل ہوگا۔

 


فتوی نمبر : 143609200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں