مہتممینِ مدارس لوگوں سے پیسہ لے کر جانور خریدتے ہیں، مثلاً لوگوں سے 14 ہزار روپے لیے مگر جانور 10000 میں پڑتاہے، باقی رہے 4000 وہ مدرسے والے رکھ لیتے ہیں. آیا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ کیا اس صورتِ حال میں مہتممینِ مدارس کو وکیل بالاجرۃ مان کر ما بقیہ رقم کو حلال کہہ سکتے ہیں جب کہ معاملہ پہلے سے وکالت بالاجرۃ کا طے شدہ نہ ہو؟
اگر قربانی کا انتظام کرنے والے ادارے اجرت کے طور پر کچھ لینا چاہیں، تو ابتدا ہی سے وضاحت کرکے اور متعین کرکے لے سکتے ہیں، بلا معاہدے کے بعد میں نہیں.
اگر ابتدا میں اجرت کے حوالے سے کوئی بات طے نہ ہو تو جن لوگوں کی طرف سے قربانی کی گئی ہے، اُن کی اجازت سے ، اُن کے بیان کردہ مصرف میں خرچ کرنے کے پابند ہوں گے۔
’’ الفقہ الإسلامي وأدلته ‘‘ :
"ویشترط لجواز إقامة التضحیة علی المکلف بها نیة الأضحیة، فلاتجزی الأضحية بدونها، لأن الذبح قد یکون للحم وقد یکون للقربة، والفعل لایقع قربة بدون النیة".(۴/۲۷۱۳، کتاب الأضحیة)
’’ السنن الکبری للبیهقي ‘‘ : ’’ لایحل مال امرئٍ مسلم إلا بطیب نفس منه ‘‘. (۶/۱۶۶، کتاب الغصب ، مشکاة المصابیح :ص/۲۵۵ ، السنن الدارقطني :۳/۲۲، کتاب البیوع ، رقم الحدیث:۲۸۶۲)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200152
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن