بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی سے متعلق متفرق مسائل


سوال

ہم گذشتہ کئی سالوں سے مختلف رفاہی اور خدمت خلق کے کاموں میں مصروف عمل ہیں ۔ جن میں سے ایک کام وقف قربانی ہے۔ ایک بڑی تعداد میں لوگ قربانی وقف کرتے ہیں اور ہمیں قربانی کی رقم جمع کرواکے اپنی قربانی کا وکیل بنادیتے ہیں اور ہم عید قرباں کے دن ان کی قربانی مستحقین ،نادار اور مہاجرین تک پہنچاتے ہیں ۔ان وقف قربانیوں سے متعلق دو مسائل میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔1۔قربانیوں کا ایک بڑا حصہ افغانستان سے ملحقہ سرحدی ،قبائلی اور افغان علاقوں میں قربان کیا جاتا ہے ۔ان میں مسئلہ یہ ہے کہ واقفین کے ہاں ابھی (٩)نوذوالحجہ ہوتی ہے جب کہ قربانی کی جگہ دس ذوالحجہ ہوجاتی ہے اس میں واقف کی جگہ کا اعتبار ہے یا قربانی کی جگہ کا،واقف کے پاس اگر نوتاریخ ہو اور قربانی کی جگہ دس تاریخ تو کیا قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

2۔ان وقف قربانیوں میں زیادہ حصہ تو نفل قربانیوں کا ہوتا ہے لیکن کچھ مقدار واجب قربانیوں کی بھی ضرور ہوتی ہے ۔یہ نظم تو ہم نے بنایا ہے کہ کس فرد کی قربانی کہاں ہورہی ہے اس کا باقاعدہ ایک منظم اورمربوط سسٹم سے کسی وقت بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔البتہ نفل وواجب میں امتیاز کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔گذشتہ ایک دوسالوں میں یہ مسئلہ درپیش آیا کہ قربانی کیلئے ایک جانور خریدا گیا لیکن وہ قربانی سے قبل مر گیا اور قربانی نہیں ہوسکی۔اس صور ت میں کیا حکم ہے ؟

٭…اس قربانی کے شرکاء کا اطلاع دی جائے ؟ ٭…یہ قربانی ان کیلئے دوبارہ ضروری ہے یانہیں؟

٭… یاہمارے پاس عطیات کی جو رقوم موجود ہوں اس میں سے قربانی کردی جائے؟ ہمارے لئے اور اصحاب قربانی کیلئے اس صورت میں کیا حکم ہے۔

٭…اگر قربانی کے کچھ حصص نفل اور کچھ واجب ہیں تو پھر حکم کیا ہے؟  اس باب میں آپ کی جامع اور مدلل رہنمائی اس کارخیر کو مزید منظم ،بہتر اور تابع شریعت بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

جواب

قربانی میں واقف یعنی قربانی کرنے والے اورقربانی کے جانوردونوں کااعتبارکیاجائے گا۔یعنی دونوں کے اعتبارسے جوعیدکے مشرکہ دن ہوں گے ان میں قربانی کرنالازم ہوگا۔مثلاً واقف کے ہاں نوذی الحجہ ہے جبکہ قربانی کے مقام پردس ذی الحجہ ہوچکی ہے تواس صورت میں گیارہ اوربارہ ذی الحجہ کے ایام چونکہ ان دونوں کے مشترکہ عیدکے ایام ہیں لہذا اس صورت میں نوتاریخ ک کوقربانی درست نہیں ہوگی بلکہ دس یا گیارہ تاریخ کومشترکہ ایام میں قربانی کرنی ہوگی۔

اگرقربانی سے قبل قربانی کاجانورمرجاتاہے توقربانی کرنے والے کواطلاع دے دینی چاہیے،ممکن ہے کہ واجب قربانی کے لیے حصہ ڈالاگیاہو،اورواجب قربانی میں اگرجانورمرجاتاہے توفریضہ ساقط نہیں ہوتابلکہ مالدارآدمی پردوسرے جانورکی قربانی لازم ہوتی ہے۔البتہ غریب آدمی کے حق میں چونکہ جانورمتعین ہوجاتاہے لہذا جانورکے مرنے سے اس پردوبارہ قربانی لازم نہیں۔واقف کے جانورکے مرجانے کی صورت میں عطیات کی مدمیں جمع ہونے والی رقم سے واقف کی طرف سے قربانی درست نہیں۔

اگرقربانی کے جانورمیں کچھ حصے نفل قربانی کے ہوں اورکچھ واجب قربانی کے توسب کی قربانی درست ہے اس لیے کہ نیت سب کی ثواب اوررضاء الہٰی کی ہے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143611200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں