بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی عمل افضل ہے یا انفرادی عمل؟


سوال

تبلیغ والے کہتے ہیں کہ اگر جماعت کھانا کھا رہی ہو تو پہاڑ  کے برابر اس کا اجر وثواب ہے، اور کوئی شخص انفرادی نیک عمل کرے تو وہ قطرہ ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ 

جواب

عمومی طور پر یہ کہنا تو درست نہیں کہ اجتماعی عمل (خواہ کھانا کھانا ہی ہو ) کسی بھی انفرادی نیک عمل سے افضل ہے،  بلکہ درحقیقت تمام اعمال کے اپنے اپنے مراتب اور درجات ہیں، جو مختلف مواقع کے اعتبار سے  بدل بھی جاتے ہیں، نیز ہر عمل کا درجہ شریعت کے عمومی مزاج اور اس کے موقع سے متعین ہوتا ہے۔ 

حضرت ابو ذر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ!  کون سا عمل ( سب سے زیادہ) افضل ہے ؟ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ جل شانہ پر ایمان لانا  اوراس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں  نے عرض کیا : کون سا غلام آزاد کرنا زیادہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   جو مالکوں کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو اور اس کی قیمت سب سے زیادہ ہو ۔  میں نے عرض کیا : پس اگر میں ( اپنی تہی دستی کی وجہ سے ) نہ کروں تو؟ ( یعنی غلام آزاد نہ کر سکوں تو؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کسی کاری گر  کی مدد کرو ، یا کسی ناکارہ کے لیے  کام کرو، ( خود محنت مزدوری کر کے اس کو دے دو یا اس کے معاش کی کفالت کرو )۔ میں نے عرض کیا:  یا رسول اللہ!   اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کرسکوں؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :   تم اپنے شر سے لوگوں کو بچاؤ ، ( یعنی کسی بھی شخص کو کسی بھی طرح کا دُکھ  یا تکلیف نہ پہنچاؤ ) کہ یہ تمہارا خود اپنے اوپر احسان ہے ۔ (صحیح بخاری)

اس حدیث سے معلوم ہو کہ دین نے نیک اعمال کا دائرہ محدود نہیں رکھا،  بلکہ وہ حالات اور استعداد وطاقت کے لحاظ سے پھیلاہواہے اور جوشخص بھی ان میں سے کوئی عمل کرے گا  وہ اجر کا مستحق ہوگا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بڑے  نیک عمل  کرنے والوں کو کسی  دوسرے عمل سے وابستہ لوگوں کی تحقیر نہ کرنی چاہیے؛ اس لیے کہ ہر عمل اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ 

البتہ جو شخص جماعت میں نکل کر وقت لگا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ جماعت کے اجتماعی اعمال کو اپنے انفرادی اعمال پر ترجیح دے  اور اجتماعی عمل کے وقت اسی میں شریک رہے، کسی انفرادی عمل میں نہ لگے، جماعت میں یہی نظم سکھایا جاتا ہے اور اس کا اہتمام کرنے سے ہی صحیح معنوں میں مطلوبہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

"عَنْ أبي ذر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : " إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ ". قُلْتُ : فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : " أَغْلَاهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا ". قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ ؟ قَالَ : " تُعِينُ صَانِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ ". قَالَ : فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ ؟ قَالَ : " تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ ؛ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ ".(صحيح البخاري،رقم الحديث: ٢٥١٨)

وفي الفتح:

"قال النووي: محله والله أعلم فيمن أراد أن يعتق رقبة واحدة، أما لو كان مع شخص ألف درهم مثلا فأراد أن يشتري بها رقبة يعتقها فوجد رقبة نفيسة أو رقبتين مفضولتين فالرقبتان أفضل، قال: وهذا بخلاف الأضحية فإن الواحدة السمينة فيها أفضل، لأن المطلوب هنا فك الرقبة وهناك طيب اللحم ا هـ.
والذي يظهر أن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص، فرب شخص واحد إذا أعتق انتفع بالعتق وانتفع به أضعاف ما يحصل من النفع بعتق أكثر عددا منه، ورب محتاج إلى كثرة اللحم لتفرقته على المحاويج الذين ينتفعون به أكثر مما ينتفع هو بطيب اللحم، فالضابط أن مهما كان أكثر نفعا كان أفضل سواء قل أو كثر، واحتج به لمالك في أن عتق الرقبة الكافرة إذا كانت أغلى ثمنا من المسلمة أفضل، وخالفه أصبغ وغيره وقالوا: المراد بقوله أغلى ثمنا من المسلمين، وقد تقدم تقييده بذلك في الحديث الأول". (فتح الباري في شرح الحديث المذكور) فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144103200705

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں