بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپریشن سے جنس تبدیل کرانے کے بعد میراث میں حصہ


سوال

1- اگر کوئی عورت آپریشن کرکے مرد بن جائے اور باقاعدہ اس میں مردانہ قوت اور ہم بستری وغیرہ کی طاقت بھی پیدا ہوجائے، الغرض وہ تمام صفات میں مرد بن جائے، تو میراث میں اس کے حصے کا کیا حکم ہوگا؟  کیا اسے عورت سمجھ کر والدین وغیرہ کی میراث میں سے حصہ ملے گا، یا موجودہ حالت کے مطابق اسے مرد سمجھ کر دیا جائے گا؟ کیا یہاں قلبِ ماہیت کا اعتبار ہوگا؟ یا خلق اللہ کا اعتبار ہوگا؟

2- اگر کوئی خنثیٰ واقعۃً خنثٰی مشکل ہو، بڑی عمر میں جاکر وہ مرد یا عورت بن جائے، یعنی اس میں مرد یا عورت کی صفات غالب آجائیں اور وہ شرعی اعتبار سے خنثٰی نہ رہے، تو اس کی شادی کا کیا حکم ہوگا؟ نیز اس کی میراث کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی  مرد یا عورت کا اپنی جنس کو بذریعۂ  آپریشن تبدیل کردینا ناجائز اور ملعون عمل ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی خلقت وبناوٹ کو بدلنا، فطرت سے بغاوت کرنا، مذموم وشیطانی حرکت کا ارتکاب کرنا، اور تخلیقِ الٰہی کو چیلنج کرنا ہے، شریعتِ اسلامیہ میں اس کی اجازت نہیں ۔

 قرآنِ کریم میں ہے:

{فِطْرَتَ الله الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْها لا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ الله} [سورۃ الروم:۳۰]

’’اللہ کی فطرت پر قائم رہو، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں‘‘.

 اور حدیثِ پاک میں ہے کہ اللہ پاک نے خلقت میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز جب خوب صورتی کے لیے یا کم عمر دکھانے کے لیے پلاسٹک سرجری کروانا، اور عورتوں کا مردوں  کے ساتھ، یا مردوں کا عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا، ناجائز وممنوع ہے، تو جنس کو تبدیل کرنا، بدرجۂ اولیٰ ناجائز اور حرام ہے،  ایسے ناجائز تصرفات کی اجازت انسانوں میں حیوانیت اور درندگی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہوگا۔

نیز اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کی جنسی ساخت بالکل جداگانہ بنائی ہے، تبدیلِ جنس کے مروجہ عمل سےظاہری طور پر ممکن ہے کہ کچھ آثار میں تبدیلی ہوجائے، ایسا شخص جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے آثار ظاہر ہوجائیں، ایسا شخص اگر آپریشن کے ذریعے اپنی مردانہ یا زنانہ علامات کو ختم کروادے تو  آپریشن کروانے کے بعد اس میں جو صفات غالب ہوں، اس کا شمار اسی جنس سے ہوگا یعنی مرد کی علامتیں ہیں تو مرد رہے گا اور اگر عورت کی علامتیں ہیں تو عورت رہے گی،اور اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو کہ یہ مرد ہے یا عورت ،تو اس کا حکم خنثٰی مشکل کے درجہ میں ہوگا۔

2- خنثیٰ مشکل بڑی عمر میں اگر مرد بن جائے تو اس پر مردوں کے احکا م لا گو ہوں گے اور اگر عورت بن جائے تو اس پر عورتوں والے احکام جا ری ہوں گے۔

قرآن مجید میں ہے:

{وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ الله} [سورۃ النساء:۱۱۹]

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال:’’لعن الله الواشمات والمستوشمات، والنامصات والمتنمصات، والمتفلجات للحسن، المغیرات خلق الله‘‘.(کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ ،ج:۲،ص:۲۰۵،ط:قدیمی)

احکام تجمیل النساء میں ہے:

"وقد رأی العلماء المعاصرون تحریمها ومنعها لدلالة النقل والعقل علی منعها.

 فأما النقل : فبقول اللّٰه عز وجل: { ولآمرنهم فلیغیرن خلق اللّه } [النساء : ۱۱۹] ووجه الدلالة من الآیة : أنها من سیاق الذم وبیان المحرمات التي یسول الشیطان للإنسان بفعلها، ومن هذه المحرمات تغییر خلق اللّٰه وهذه الجراحات تشتمل علی تغییر خلق الله والعبث فیهاحسب الهوی والرغبة ، فتکون العملیة والحال هذه مذمومة شرعًا ، ومن جنس المحرمات التي یسول بها الشیطان للإنسان.

ومن السنة یقول النبي ﷺ : ’’...والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰه ...‘‘. [صحیح مسلم : ۲/۲۰۵] ووجه الدلالة: أنه ﷺ جمع بین تغییر الخلقة وطلب الحسن وکلا هذین المعنیین موجودان في الجراحة التحسینیة ، فإنها تغییر للخلقة من أجل الحسن  بل والزیادة فیه، فهي علی هذا داخلة في الوعید ، ولایجوز أن تفعل".(المبحث الثانی :جراحۃ التجمیل التحسینیۃ،ص:۳۷۸،ط:داراحیاء اللغۃ العربیۃ)

البحرالرائق میں ہے:

( إن بلغ وخرجت له لحية أو وصل إلى النساء فرجل وكذا إذا احتلم من الذكر ) لأن هذه من علامة الذكر  قال رحمه الله ( وإن ظهر ثدي أو لبن أو أمكن وطؤه فامرأة ) لأن هذه من علامات النساء قال رحمه الله ( وإن لم تظهر له علامة أو تعارضت فمشكل ) لعدم ما يوجب الترجيح ". (کتاب الخنثیٰ،ج:۸،ص:۴۷۲،ط:رشیدیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإن بلغ وجامع بذكره فهو رجل، وكذا إذا لم يجامع بذكره ولكن خرجت لحيته فهو رجل، كذا في الذخيرة وكذا إذا احتلم كما يحتلم الرجل أو كان له ثدي مستو، ولو ظهر له ثدي كثدي المرأة أو نزل له لبن في ثدييه أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من الفرج فهو امرأة، وإن لم تظهر إحدى هذه العلامات فهو خنثى مشكل، وكذا إذا تعارضت هذه المعالم". (الفصل الثانی فی احکام الخنثیٰ ،ج:۶،ص:۴۳۸،ط:ماجدیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يعرف به أنه ذكر، أو أنثى، فإنما يعرف ذلك بالعلامة، وعلامة الذكورة بعد البلوغ نبات اللحية، وإمكان الوصول إلى النساء وعلامة الأنوثة في الكبر نهود ثديين كثديي المرأة ونزول اللبن في ثدييه والحيض والحبل، وإمكان الوصول إليها من فرجها؛ لأن كل واحد مما ذكرنا يختص بالذكورة والأنوثة فكانت علامة صالحة للفصل بين الذكر والأنثى".(فصل في بيان ما يعرف به الخنثى أنه ذكر أو أنثى،ج:۷،ص:۳۲۷،ط:سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں