بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استغفار کے مشہور کلمات


سوال

درج ذیل استغفار عام ہے :  "أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّيْ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّأَتُوْبُ إِلَيْهِ"​ اس دعا سے متعلق درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔ کیا یہ دعا احادیث کی کتابوں میں موجود ہے؟  2۔ اگر موجود ہے تو اس حدیث کا حوالہ اور صحت بیان فرما دیں؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ استغفار کے الفاظ بعینہ مکمل تو حدیث کی کسی کتاب میں نہیں مل سکے، البتہ مختلف احادیث میں یہ مضمون وارد ہے، جس سے اس کی تائید ہوتی ہے:

صحيح مسلم (1/ 351)
'' 220 - (484) حدثني محمد بن المثنى، حدثني عبد الأعلى، حدثنا داود، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر من قول: «سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه» قالت: فقلت يا رسول الله، أراك تكثر من قول: «سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه؟» فقال: " خبرني ربي أني سأرى علامة في أمتي، فإذا رأيتها أكثرت من قول: سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه، فقد رأيتها ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ﴾ [النصر: 1] ، فتح مكة، ﴿ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِىْ دِيْنِ اللهِ اَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّه كَانَ تَوَّاباً ﴾ [النصر: 3] "

سنن أبي داود (2/ 85)
" سمعت بلال بن يسار بن زيد، مولى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت أبي، يحدثنيه عن جدي، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من قال: أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم، وأتوب إليه، غفر له، وإن كان قد فر من الزحف. "
تاريخ المدينة لابن شبة (3/ 1136)

" عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَدِمَ الْمِصْرِيُّونَ فَلَقَوْا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: ۔۔۔ وَمَا تَنْقِمَونَ أَيْضًا؟» قَالُوا: تَعْطِيلَ الْحُدُودِ. قَالَ: «وَأَيَّ حَدٍّ عَطَّلْتُ؟ وَمَا وَجَبَ حَدٌّ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَقَمْتُهُ عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ أَنْ تَلْقَوْا غَدًا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَسْتُمْ مِنْهُ فِي شَيْءٍ».

الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (1/ 135)
" وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (" إن عبداً أذنب ذنباً فقال: رب إني أذنبت ذنباً فاغفره لي)  (فقال الله تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنباً، فعلم أن له رباً يغفر الذنب , ويأخذ بالذنب، (قد غفرت لعبدي ، ثم مكث ما شاء الله  ثم أذنب ذنباً ، فقال: رب أذنبت ذنباً آخر، فاغفره لي) (فقال الله تبارك وتعالى: عبدي أذنب ذنباً، فعلم أن له رباً يغفر الذنب ويأخذ بالذنب)، (قد غفرت لعبدي، ثم مكث ما شاء الله ، ثم أذنب ذنباً ، فقال: رب أذنبت ذنباً آخر ، فاغفره لي)، (فقال الله تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنباً، فعلم أن له رباً يغفر الذنب ، ويأخذ بالذنب، قد غفرت لعبدي , فليعمل ما شاء ").

واضح رہے کہ ''استغفار'' کے معنی ہیں اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی مانگنااور بخشش طلب کرنا یعنی توبہ کرنا، اوراس کی  حقیقت اور روح یہ ہے کہ آدمی اپنے گناہوں کو سوچے، جنہوں نے اس کے نفس کو گھیر رکھا ہے، یعنی اس کو میلا اور گندا کررکھا ہے اور پھر اسبابِ مغفرت اختیار کر کے نفس کو ان گناہوں سے پاک کرے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اول باری تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے، اور اس پر ندامت کا اظہار کرے، اور آئندہ گناہ نہ کرنے پختہ عزم کرے اور اس کے بعد صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اس کے لیے کوئی بھی لفظ جس میں اللہ سے معافی مانگنے کا معنی موجود ہو استعمال کیا جاسکتا ہے، اور  سوال میں ذکر کردہ الفاظ  بھی استغفار کا مفہوم بخوبی و احسن طریقہ سے ادا کرتے ہیں ،   "أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّيْ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّأَتُوْبُ إِلَيْهِ" کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے پروردگار سے اپنے تمام گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں، علماءِ کرام نے عربی نہ جاننے والوں کی آسانی کے لیے مختلف احادیث اور استغفار کا مقصد اور روح کو سامنے رکھتے ہوئے استغفار کے یہ جامع الفاظ بتائے ہیں اسی وجہ سے یہ مشہور ہوگئے ہیں ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں