بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آداب گفتگو


سوال

یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ہمیں تکلم کے آداب بھی سکھائے جاتے ہیں, مثلاً: آواز میں مناسب اتار چڑھاؤ، مخاطَبیین سے نظریں ملا کر بات کرنا، ہاتھوں کو بقدرِ ضرورت حرکت دینا وغیرہ،  بندہ کو اس سلسلے میں سنت طریقہ معلوم کرنے کی جستجو ہے۔

جواب

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں گفتگو کے آداب کے بارےمیں واضح ارشادات موجود ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ آواز نہ بہت زیادہ اونچی  نہ ہو اور نہ ہی بہت زیادہ پست ،اگر سامعین کی تعداد زیادہ ہو اور آہستہ آواز میں ان تک بات پہنچانا ممکن نہ ہو تو ضرورت کے مطابق آواز کو اونچا رکھا جائے،گفتگو کی مناسبت سےآواز میں مناسب اتار چڑھاؤ رکھا جائے، بے موقع چیخنا  اورچلانا وقار کے خلاف ہے، حضرت لقمان علیہ السلام نےاپنے بیٹے کو  آواز پست رکھنے کی جو نصیحت فرمائی  تھی، قرآن کریم نے اسے نقل کیا ہے:

وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان : ۱۹]

ترجمہ: اور اپنی آواز کو پست کر ،بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آوازہے۔

2۔ گفتگوصاف اور ٹھہر ٹھہر کر ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار، جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی، بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا، پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے، بخاری شریف میں ہے کہ: آپ ﷺ اتنا واضح اور ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے کہ اگر کوئی  شخص آپ کے الفاظ گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔

3۔  سننے والوں کی ذہنی سطح کی رعایت کرتے ہوئے بات کو دہرایا جاسکتا ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں۔

4۔ ابتدا سے لے کر انتہا تک گفتگو منہ بھر کے ہو، الفاظ کاٹ کاٹ کر گفتگو نہ کی جائے۔

5۔ گفتگومطلب کو واضح کرنے والی اور معنی خیزہو،مبہم اور غیر واضح گفتگو سے بچا جائے۔

6۔ مخاطب کو متوجہ کرنے اور گفتگو کو اس کے دل و دماغ میں پیوست کرنے کے لیے ہاتھ کے ذریعہ سے مناسب اشارے اورچہرے کے پروقارتاثرات سے کام لیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں تکلف سے اجتناب کیا جائے، رسول اللہ ﷺتعجب خیز بات پر ہاتھ پلٹ لیتے تھے، آپ ﷺگفتگو کے ساتھ ہاتھوں کو بقدر ضرورت حرکت دیتے تھے، اگر کسی جانب اشارہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کیا جائے ، صرف انگلیوں سے اشارہ  کرنا مناسب نہیں،  آپ ﷺ کبھی کبھار داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصے پر مارتے تھے۔

7۔اگر دورانِ گفتگو کوئی خوش گوار  بات آئے تو مسکرا دیا جائے؛ کیوں کہ آپ ﷺ بھی پُرلطف بات پر تبسم فرمالیتے تھے ، جس سے آپ کے دندان  مبارک ظاہر ہوجاتے تھے،قہقہہ نہ لگایا جائے، یہ وقار کے خلاف ہے، آپ ﷺاونچی آواز سے قہقہہ نہیں لگاتے تھے۔

امام ترمذی نے اپنی کتاب "شمائل ترمذی" میں نبی کریم ﷺ کی گفتگو کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چناں چہ وہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے  ہیں کہ: انہوں  نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے (جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اکثر بیان فرماتے ہیں) عرض کیا کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان فرمائیے، انہوں نے فرمایا کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (آخرت کے) غم میں متواتر مشغول رہتے ۔ (ذات وصفات باری تعالیٰ یا امت کی بہبود کے لیے) ہر وقت سوچ میں رہتے تھے، ان امور کی وجہ سے  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے فکری اور راحت نہ ہوتی تھی ، اکثر اوقات خاموش رہتے تھے بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی، (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی، جیساکہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ (جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کو تاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت مزاج نہ تھے، نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے ،اس کی مذمت نہ فرماتے تھے، البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے نہ تعریف فرماتے ،دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غصہ نہ آتا تھا ، البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ اس کا انتقام نہ لے لیں ۔ اپنی ذات کے لیے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے نہ اس کا انتقام لیتے تھے ،جب کسی وجہ سے کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے ،جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو (ہاتھ) ملا لیتے اور کبھی داہنی   ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے۔اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے اور یا درگزر فرماتے۔ اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں