بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آگ سے جلے ہوئے شخص کے وضو اور تیمم کا حکم


سوال

درج ذیل جواب ایک طالب العلم کی طرف سے دیا گیا۔ درستی کی صورت میں اس جواب کی تایید اور غلطی کی صورت میں تصحیح مطلوب ہے۔

محترم جناب مفتیان کرام! ایک مسئلہ ہے ارجنٹ جواب چاہیے کہ ایک عورت آگ سے جل گئی ہے اب وہ نمازوں کے لیے کیا تیمم کرے کیوں کہ  پورا جسم جل گیا ہے پانی کا استعمال نہیں کرسکتی، یورین بیگ لگا ہوا ہے ہسپتال میں ہے؟ کیا وہ نماز کے لیے تیمم کرے اور پاکی کا غسل کس طرح کرے؟

سائلہ سے مزید یہ تفصیل یہ معلوم ہوئی کہ جسم کے اکثر حصے پر، جس میں مواضع تیمم بھی کافی حد تک شامل ہیں، پٹی باندھی ہوئی ہے، جو مسح سے رکاوٹ بنتی ہیں و السلام: ایک سائلہ

⏩الجواب حامدا و مصليا⏪

مذکورہ صورت میں، کیوں کہ نہ مکمل تیمم پر قادر ہے اور نہ ہی پانی کے استعمال پر، وہ بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"اللہ تعالیٰ ایک جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔"(۱)، (۲)

مزید یہ کہ جیسے ان کا یہ عذر ختم ہو جائے اور وہ تیمم پر قادر ہو جائے، وہ تیمم کا اہتمام کرے۔ اور جب پانی کا استعمال مضر نہ رہے تو وضو اور غسل کا اہتمام کرے۔ (۳)

• (۱) البقرة: ٢٨٦

• (۲) رجل مقطوع اليدين والرجلين سقط عنه هذان الفرضان وبقي عليه غسل الوجه ومسح الرأس، فإن لم يكن معه من يوضئه أو ييممه سقط عنه ذلك أيضاً لأن قوله: فَاغْسِلُوا وَامْسَحُوا مشروط بالقدرة عليه فإذا فاتت القدرة سقط التكليف.(تفسير النيسابوري: ۲ / ۵۵۸) • (۳) ما جاز لعذر بطل بزواله، (الأشباہ و النظائر، قاعدہ ۸۶)  فقط  واللہ اعلم 

جواب

مذکورہ جواب درست ہے، البتہ اس میں مزید کچھ یہ تفصیل ہے کہ اگر پورا جسم جل جانے کی صورت میں وضو پر قادر نہیں یا پانی نقصان پہنچارہا ہے تو وضو کاحکم اس سے ساقط ہوجائے گا، نیز اس کے اعضاءِ تیمم پر اگر پٹی ہو تو تیمم بھی نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ مسح پر قادر ہے یعنی مسح سے اس کو نقصان نہیں پہنچے گا، اور وہ خود مسح کرسکتی ہے یا کوئی اور ایسا شخص موجود ہے جو اس کی اعانت کرے گا جیسا کہ خادمہ، بیٹی وغیرہ تو ایسی صورت میں یہ عورت مسح کرکے نماز پڑھ لے، اس کی صورت یہ ہوگی کہ پانی میں ہاتھ گیلا کرے وضو کے وقت اعضاءِ وضو پر پانی والا ہاتھ  پھیر دے، اور غسل کے لیے پورے جسم پر اس طرح گیلا ہاتھ پھیر دے، بشر ط یہ ہے کہ یہ مسح اس کو نقصان نہ پہنچائے، اگر مسح سے بھی نقصان پہنچتا ہوتو  پھر مسح بھی چھوڑ دے اور اسی طرح نماز پڑھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 102):
" [فروع]
في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، ولا يقدر على الماء تيمم، ولو قطع من المرفق غسل محل القطع.

(قوله: شقاق) هو بالضم. وفي التهذيب قال الليث: هو تشقق الجلد من برد أو غيره في اليدين والوجه: وقال الأصمعي: الشقاق في اليد والرجل من بدن الإنسان والحيوان، وأما الشقوق فهي صدوع في الجبال والأرض. وفي التكملة عن يعقوب: يقال بيد فلان شقوق ولا يقال شقاق؛ لأن الشقاق في الدواب: وهي صدوع في حوافرها وأرساغها مغرب.
(قوله: وإلا تركه) أي وإن لم يمسحه بأن لم يقدر على المسح تركه.
(قوله: ولا يقدر على الماء) أي على استعماله لمانع في اليد الأخرى، ولا يقدر على وضع وجهه ورأسه في الماء".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 231):
"[تتمة] زاد في نور الإيضاح في الشروط شرطين آخرين: الأول انقطاع ما ينافيه من حيض أو نفاس أو حدث: والثاني زوال ما يمنع المسح على البشرة كشمع وشحم، لكن يغني عن الثاني الاستيعاب كما لا يخفى".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 147):
"(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، وهو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لا يبيح التيمم، وهو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، وهو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة ودفع الحرج، وهو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد والامتداد ولا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لا يجد من يوضئه ولا يقدر بنفسه اتفاقا، وإن وجد خادما كعبده وولده وأجيره لا يجزيه التيمم اتفاقا كما نقله في المحيط، وإن وجد غير خادمه من لو استعان به أعانه ولو زوجته فظاهر المذهب أنه لا يتيمم من غير خلاف بين أبي حنيفة وصاحبيه كما يفيده كلام المبسوط والبدائع وغيرهما". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 234)"
" لكن قدمنا أن ظاهر المذهب أنه لا يجوز له التيمم إن كان لو استعان بالزوجة تعينه وإن لم يكن ذلك واجباً عليها".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں