بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کے لیے ایصال ثواب کرنا اور اس کی ضرورت


سوال

کیا ہم نبی پاک ﷺ کے لیے ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں، کیا ان کو ضرورت ہے ہمارے ایصالِ ثواب کی؟ کیا وہ پاک روح نہیں، ساری عمر کوئی گناہ نہیں کیا، اور ایصالِ ثواب کی ضرورت کس کو ہوتی ہے؟  حضرت محمد ﷺ جیسی عظیم ہستی کو ہم امتی ہونے کے ناطے تحفۃً  ثواب پیش کریں یہ زیادہ اچھا نہیں ہے بجائے ایصالِ ثواب کے؟!  جس ہستی نے ہم کو  بتایا کہ نیکی کیا ہے اور کیسے کرنی ہے!  ہمیں زندگی سکھائی اور بتائی بھی،  کیا ان کو ہماری ہر نیک کام کا اجر نہیں  ملتا، جیسے ہم کسی کو  کوئی ورد  یا نیک عمل بتاتے ہیں تو کرنے والے کو تو ثواب ملتا ہے،  لیکن جس نے بتایا اس کو بھی اجر ملتا رہے گا جب تک بندہ وہ نیک عمل کرتا رہے گا؟

 

جواب

ایصالِ  ثواب کا معنی  ہے ”ثواب پہچانا“۔  ایصالِ ثواب زندہ لوگوں کے لیے بھی جائزہے،  اور جو دنیا سے رحلت فرماچکے ہیں ان کے لیے بھی جائزہے، ایصالِ ثواب مسلمان  گناہ گار  شخص کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے اور نیکوکار، متقی شخص کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، ایصال ثواب  کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ اس سے مرنے والے کے گناہ معاف ہوں گے یا عذاب میں تخفیف ہوگی، بلکہ یہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، ایصالِ ثواب جہاں عذاب میں تخفیف کے لیے ہوتا ہے وہیں درجات کی بلندی کے لیے بھی ہوتا ہے، اس کا ثواب جس طرح اس شخص کو پہنچتا ہے جس کے لیے ایصالِ ثواب کیا گیا ہے بالکل اسی طرح نیک عمل کرکے ثواب پہنچانے والے کو بھی ملتا ہے،  بہت سی  احادیثِ مبارکہ یہ مضمون وارد ہے کہ جو نیک عمل  یا سورۂ اخلاص وغیرہ پڑھ کر تمام وفات پاجانے والے مسلمان مرد اور عورتوں کو بخش دیتا ہے تو ان سب کے بقدر اس کو بھی اجر ملتا ہے،  نیز جس کے لیے ایصالِ ثواب کیا جائے اس تک فرشتے  پیغام پہنچاتے ہیں کہ فلاں شخص نے آپ  کے لیے یہ تحفہ بھیجا ہے، جس سے وہ خوش ہوتا ہے، یہ ایک محبت، قربت ، تعلق کی علامت ہوتی ہے، نیک لوگوں کو ایصالِ ثواب کرنے سے ان کے روحانی فیوضات وبرکات حاصل ہوتی ہیں۔

اس مختصر سی تمہید کہ بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ سید الکونین، خاتم الانبیاء ، محبوب رب العالمین حضرت محمد ﷺ معصوم ہیں، گناہوں سے پاک وصاف ہیں،  بخشے بخشائے ہیں، یقیناً انہیں ہمارے ایصالِ ثواب کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہمیں ان کو ایصالِ ثواب کرنے کی ضرور ضرورت ہے، آپ ﷺ  کا ہر امتی پر اس قدر احسان ہے کہ اگر زندگی کے ہر لمحہ میں بھی آپ کے لیے ایصالِ ثواب جاری رکھا جائے تو بھی آپ کے احسانات کا حق ادا نہیں ہوسکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی دن اور جگہ کی تعیین کے بغیر  ایصالِ ثواب کرنا انتہائی سعادت اور خوش بختی  ہے،  چوں کہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے ، جب کہ آپ ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجنے سے اللہ تعالیٰ درود پڑھنے والے پر دس رحمتیں نازل کرتے ہیں تو آپ کے لیے نیک اعمال،  درود شریف وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنے سے کس قدر رحمتوں کا نزول ہوگا؟  نیز جب ہمارا ٹوٹا پھوٹا نذرانہ فرشتے آپ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ کے فلاں امتی نے آپ کے لیے یہ بھیجا ہے تو آپ اس سے خوش ہوں گے، کسی امتی کے لیے اس سے بڑی اور کیا خوشی ہوسکتی ہے؟

نیز اس سے آخرت میں شفاعت کی امید بھی ہے، خود کثرت سے درود شریف پڑھنے پر شفاعت کی نوید منقول ہیں، نیز  ایک حدیث میں ہے کہ  عبداللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن سے اذان سنو تو جیسے وہ کہتا ہے تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود بھیجو، جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس دس رحمتیں نازل کرتا ہے، پھر اللہ سے میرے  لیے وسیلہ مانگو؛  کیوں کہ وہ جنت کا ایک درجہ ہے،  اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، جو اللہ سے میرے وسیلہ کی دعا کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی (صحیح مسلم)۔

اصل میں آپ کو شبہ اس بات سے ہوا کہ شاید ایصالِ ثواب صرف اسی کو کہتے ہیں کہ مردے کی ضرورت یا اس کے گناہ گار ہونے کی صورت میں کسی نیکی کا ثواب اسے پہنچانا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے مفہوم میں یہ قید نہیں ہے، بلکہ جیسے زندگی میں امتی بھی عمل کرتے ہیں اور نبی بھی کرتے ہیں، لیکن دونوں کے عمل میں بہت فرق ہے،{اهدنا الصراط المستقیم} میں ہدایت کی دعا امتی بھی ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگتاہے، اور نبی ﷺ بھی اپنی نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگتے رہے، اور  نبی ﷺ سے زیادہ کون ہدایت حقیقت سمجھ سکتاہے،  لیکن پھر بھی ساری زندگی دعا فرماتے رہے اور ہدایت طلب فرماتے رہے، وجہ یہی ہے کہ عام امتی کے مرتبہ ہدایت اور نبی ﷺ کے لیے ہدایت کے مراتب میں بہت فرق ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے یہی عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ تو معصوم ہیں اللہ پاک نے آپ ﷺ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کردی ہیں، یعنی آپ ﷺ سے تو گناہ ہوتاہی نہیں، پھر خود کو (تہجد وغیرہ کی عبادت میں) کیوں تھکا رہے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں! 

خلاصہ یہ ہے کہ جیسے نبی ﷺ اپنی زندگی میں نیک اعمال پابندی سے کرتے رہے، جب کہ آپ ﷺ معصوم تھے، اسی طرح امتی اگر ایصالِ ثواب کرے گا تو اولاً وہ اپنی ضرورت کی وجہ سے کرے گا، نہ کہ رسول اللہ ﷺ کی ضرورت کی وجہ سے، دوسری بات یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کرے گا تو گویا وہ تحفہ ہی بھیجے گا، اس لیے کہ بعض روایات میں ہے کہ جب زندہ اپنے مردہ کو ثواب پہنچاتا ہے تو فرشتہ یہی کہتاہے کہ فلاں  نے تمہارے لیے تحفہ بھیجا ہے، لہٰذا زبان سے  ایصالِ ثواب کہے یا نیک اعمال کا تحفہ کہے، حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔

اور یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے نیک عمل کا ثواب آپ ﷺ کو بھی ملتا رہے گا، یعنی اگر کوئی امتی زبان سے نہ بھی کہے اور دل سے نیت نہ بھی کرے تب بھی پوری دنیا میں دین کے ہرنیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائیں گے، کسی کے ایصالِ ثواب یا دعا نہ کرنے سے نبی ﷺ کی شان میں معمولی کمی بھی نہیں ہوگی، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ امتی، نبی کریم ﷺ کا احسان مند ہی نہ ہو! نبی ﷺ کے لیے دعا کرنا (جیساکہ درود بھی رحمت کے نزول کی دعا اور سلام سلامتی کی دعاہے) اور ایصالِ ثواب درحقیقت امتی کی طرف سے شکرانہ ہے۔ اور خود نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا۔ جب کہ آپ ﷺ کو امتی کی دعا کی ضرورت نہیں ہے۔

لہذا آپ ﷺ کے لیے کثرت سے ہر نیک عمل،  بالخصوص درود شریف کا ایصالِ ثواب، اور آپ ﷺ کے لیے ”وسیلہ“ کی دعا کرتے رہنا انتہائی سعادت  محبت کی بات ہے۔

صحيح مسلم (1/ 288):
"عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلى علي صلاةً صلى الله عليه بها عشراً، ثم سلوا الله لي الوسيلة، فإنها منزلة في الجنة، لاتنبغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة»".

شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور (ص: 303):
"وَأخرج أَبُو مُحَمَّد السَّمرقَنْدِي فِي فَضَائِل {قل هُوَ الله أحد} عَن عَليّ مَرْفُوعاً من مر على الْمَقَابِر وَقَرَأَ {قل هُوَ الله أحد} إِحْدَى عشرَة مرةً ثمَّ وهب أجره للأموات أعطي من الْأجر بِعَدَد الْأَمْوَات.
5 - وَأخرج أَبُو الْقَاسِم بن عَليّ الزنجاني فِي فَوَائده عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: من دخل الْمَقَابِر، ثمَّ قَرَأَ فَاتِحَة الْكتاب و {قل هُوَ الله أحد} و {أَلْهَاكُم التكاثر} ثمَّ قال: اللَّهُمَّ إِنِّي جعلت ثَوَاب مَا قَرَأت من كلامك لأهل الْمَقَابِر من الْمُؤمنِينَ وَالْمُؤْمِنَات كَانُوا شُفَعَاء لَهُ إِلَى الله تَعَالَى. 

 6 - وَأخرج القَاضِي أَبُو بكر بن عبد الْبَاقِي الْأنْصَارِيّ فِي مشيخته عَن سَلمَة بن عبيد قَالَ: قَالَ حَمَّاد الْمَكِّيّ: خرجت لَيْلَة إِلَى مَقَابِر مَكَّة، فَوضعت رَأْسِي على قبر فَنمت، فَرَأَيْت أهل الْمَقَابِر حَلقَةً حَلقَةً، فَقلت: قَامَت الْقِيَامَة، قَالُوا: لَا وَلَكِن رجل من إِخْوَاننَا قَرَأَ: {قل هُوَ الله أحد}، وَجعل ثَوَابهَا لنا فَنحْن نقتسمه مُنْذُ سنة.
7 - وَأخرج عبد الْعَزِيز صَاحب الْخلال بِسَنَدِهِ عَن أنس رَضِي الله عَنهُ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: من دخل الْمَقَابِر فَقَرَأَ سُورَة يس خفف الله عَنْهُم، وَكَانَ لَهُ بِعَدَد من فِيهَا حَسَنَات". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں