بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کے روضۂ اقدس سے سلام کا جواب آنا اور مصافحہ کے لیے دست مبارک نکلنا


سوال

 علمائے کرام سے جاننا چاہتا ہوں کہ :

۱. حضرت حسین احمد مدنی (رح) کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے روضۂ اطہر کے پاس حاضر ہو کر اسطرح سلام کیا "السلام عليك يا جدى" تو روضۂ اطہر سے جواب آیا "وعليك السلام يا ولدى " تو کیا یہ صحیح ہے ؟

۲. حضرت عبدالرحمن ملا جامی رح کا مشہور واقعہ کہ آپ نے چند اشعار : ”  زمہجوری برآمد جانے عالم  + ترحم یا نبی اللہ ترحم .الخ“  جب روضۂ اطہر کے پاس پڑھا تو روضۂ مبارک سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نکالا اور ملا جامی نے مصافحہ کیا ،  حاضرین حاجیوں نے بھی یہ واقعہ اپنے آنکھوں سے دیکھا،  یہ واقعہ صحیح ہے ؟ کیوں کہ اہل حق علماء کرام اس کو   خوب بیان کرتے ہیں اور بعض لوگ سخت انکار کر تے ہیں . اوریہ بھی بتادیں کہ یہ پورا واقعہ کون سی کتاب میں پایا جاۓگا ؟ 

جواب

سید الرسل و خاتم الانبیاء، سیدنا ومولانا محمد ﷺ اپنی قبرِ  مبارک میں حیات ہیں، اور آپ درود وسلام  پڑھنے والوں کے درود و سلام کا جواب دیتے ہیں، یہ بات مسلم ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور جس طرح آپ ﷺ  کی حیاتِ دنیوی میں خرق عادت کے طور پر چند امور بطورِ معجزہ  ظاہر ہوئے ہیں، اور ان کا صدور مسلم عقیدہ ہے اسی طرح آپ کی حیاتِ برزخیہ دنیویہ جسدیہ میں اگر اس طرح کے کچھ واقعات صادر ہوں تو  یہ نہ عقلاً ممتنع ہے اور نہ ہی شرعاً، اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے، نیز اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ  اولیاء کی کرامات حق ہیں، لہذا اگر اللہ کے کسی ولی کے لیے خرقِ عادت کے طور پر  روضہ اقدس سے سرورِ کائنات حضرت رسولِ مقبول محمد ﷺ کا دستِ مبارک باہر آئے، یا آپ کے روضہ اقدس سے کسی کے سلام کا بلند آواز سے جواب دیا جائے تو یہ ممکن ہے، بلکہ اس قسم کے ایک نہیں کئی واقعات موجود ہیں، جن  کو اہلِ علم نے  اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، سرِ دست اس سلسلے میں سید احمد رفاعی رحمہ اللہ کا مشہور واقعہ ذکر ہے جو کہ مشہور صوفی بزرگ ہیں، ان کا واقعہ   علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الحاوی للفتاوی‘‘  میں نقل کیا ہے :

سید احمد رفاعی رحمہ اللہ جب 555 ھ میں حج سے فارغ ہوکر زیارت کے لیے حاضر ہوئے  اور قبرِ اطہر کے مقابل کھڑے ہوئے تو   یہ دو شعر پڑھے:

فِي حَالَةِ الْبُعْدِ رُوحِي كُنْتُ أُرْسِلُهَا ... تُقَبِّلُ الْأَرْضَ عَنِّي فَهْيَ نَائِبَتِي
وَهَذِهِ نَوْبَةُ الْأَشْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ ... فَامْدُدْ يَمِينَكَ كَيْ تَحْظَى بِهَا شَفَتِي

ترجمہ: "دوری کی حالت میں، میں اپنی روح کو خدمتِ اقدس میں بھیجا کرتا تھا، وہ میری نائب بن کر آستانہ  مبارک چومتی تھی ، اب جسموں کی حاضری کی باری آئی ہے، اپنا دست مبارک عطا کیجیے، تاکہ میرے ہونٹ اس کو چومیں"۔

اس پر قبر شریف سے دستِ مبارک نکلا اور انہوں نے اس کو چوما۔انتھی

’’وَفِي بَعْضِ الْمَجَامِيعِ: حَجَّ سَيِّدِي أحمد الرفاعي فَلَمَّا وَقَفَ تُجَاهَ الْحُجْرَةِ الشَّرِيفَةِ أَنْشَدَ: 

فِي حَالَةِ الْبُعْدِ رُوحِي كُنْتُ أُرْسِلُهَا ... تُقَبِّلُ الْأَرْضَ عَنِّي فَهْيَ نَائِبَتِي

وَهَذِهِ نَوْبَةُ الْأَشْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ ... فَامْدُدْ يَمِينَكَ كَيْ تَحْظَى بِهَا شَفَتِي

فَخَرَجَتِ الْيَدُ الشَّرِيفَةُ مِنَ الْقَبْرِ الشَّرِيفِ فَقَبَّلَهَا‘‘. (الحاوی للفتاوی ،2/ 314)

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے فضائل حج میں ’’البنیان المشید‘‘  کے حوالہ سے لکھا ہے کہ  اس وقت تقریباً  نوے ہزار کا مجمع  مسجد نبوی میں تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا، اور حضور ﷺ کے دستِ مبارک کی زیارت کی، جن میں حضرت محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ  کا نام نامی بھی ذکر کیا جاتا ہے۔(فضائل حج ص 197، آداب زیارت)

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے سلام کے جواب آںے سے متعلق بھی  واقعات نقل کیے ہیں، نمونہ کے طور پر چند کا تذکرہ ذیل میں ہے:

1) سید نور الدین ایجی شریف عفیف الدین رحمہ اللہ کے والد ماجد کے متعلق لکھا ہے کہ  جب وہ روضہ مقدسہ پر حاضر ہوئے  اور عرض کیا  "السلام علیک أیها النبي ورحمة الله وبرکاته"  تو سارے مجمع نے جو وہاں حاضر تھا  سناکہ قبر شریف سے "وعلیک السلام یا ولدي" کا جواب ملا۔

’’وَفِي مُعْجَمِ الشَّيْخِ برهان الدين البقاعي قَالَ: حَدَّثَنِي الْإِمَامُ أبو الفضل بن أبي الفضل النويري أَنَّ السيد نور الدين الإيجي وَالِدَ الشريف عفيف الدين لَمَّا وَرَدَ إِلَى الرَّوْضَةِ الشَّرِيفَةِ وَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، سَمِعَ مَنْ كَانَ بِحَضْرَتِهِ قَائِلًا مِنَ الْقَبْرِ يَقُولُ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا وَلَدِي‘‘. (الحاوی للفتاوی ،2/ 314)

2) شیخ ابو نصر  عبد الواحد  بن عبد الملک بن محمد بن ابی سعد الصوفی الکرخی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حج سے فراغت کے بعد زیارت کے لیے حاضر ہوا، حجرہ شریفہ کے پاس بیٹھا تھا کہ شیخ ابوبکر دیار بِکری رحمہ اللہ تشریف لائے، اور مواجہ شریفہ کے سامنے کھڑے ہوکر عرض کیا "السلام علیک یا رسول الله"  تو میں نے حجرہ شریفہ کے اندر سے یہ آواز سنی  "وعلیک السلام یا أبابکر" اور ان سب لوگوں نے جو اس وقت حاضر تھے اس کو سنا۔
’’وَقَالَ الْحَافِظُ محب الدين بن النجار فِي تَارِيخِهِ: أَخْبَرَنِي أبو أحمد داود بن علي بن هبة الله بن المسلمة أَنَا أبو الفرح المبارك بن عبد الله بن محمد بن النقور قَالَ: حَكَى شَيْخُنَا أبو نصر عبد الواحد بن عبد الملك بن محمد بن أبي سعد الصوفي الكرخي قَالَ: حَجَجْتُ وَزُرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ الْحُجْرَةِ إِذْ دَخَلَ الشَّيْخُ أبو بكر الدياربكري وَوَقَفَ بِإِزَاءِ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ دَاخِلِ الْحُجْرَةِ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا أبا بكر، وَسَمِعَهُ مَنْ حَضَرَ‘‘.(الحاوی للفتاوی ،2/ 314)

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے ’’فضائل حج‘‘ اور ’’فضائل درود شریف‘‘  میں اس طرح کے کئی واقعات  کئی کتابوں سے نقل کیے ہیں، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کے لیے اس قسم کے واقعات کا پیش آجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

آپ نے جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلا واقعہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ’’فضائل درود شریف‘‘  میں نقل کیا ہے :

(1)   حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے ملا جامی رحمہ اللہ  کی کتاب ’’یوسف زلیخا ‘‘  اپنی دس سال کی عمر میں والد صاحب سے پڑھی،اور ان ہی سے یہ قصہ سنا کہ حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ یہ نعت (جو یوسف زلیخا نامی کتاب کے شروع میں ہے)  لکھنے کے بعد جب ایک مرتبہ حج  کے لیے تشریف لے گئے، ان کا ارادہ  یہ تھا کہ روضہ اقدس کے پاس کھڑے ہوکراس نظم  کو پڑھیں گے، چناچہ جب حج کے بعد  مدینہ منورہ حاضری کا ارادہ کیا تو  امیر مکہ نے خواب میں حضور ﷺ کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا کہ  اس کو (یعنی جامی کو ) مدینہ نہ آنے دیں، امیرِ  مکہ نےممانعت کردی، مگر ان پر جذب وشوق اس قدر غالب تھا کہ یہ چھپ کر مدینہ منورہ  کی طرف چل دیے، امیرِ مکہ نے دوبارہ خواب دیکھا، حضور ﷺنے فرمایا وہ  آرہا ہے اس کو یہاں نہ آنے دو، امیرِ  مکہ نے آدمی دوڑائے اور ان کو راستہ سے پکڑوا کر بلایا ، ان پر سختی کی اور جیل خانہ میں ڈال دیا، اس پر امیرِ  مکہ  کو تیسری  مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ کی زیارت ہوئی ، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ کوئی مجرم نہیں ہے، بلکہ اس نے کچھ اشعار کہے ہیں، جن کو یہاں آکر میری قبر پر کھڑے ہوکر پڑھنے  کا ارادہ کررہا ہے، اگر ایسا ہوا تو قبر سے مصافحہ کے لیے ہاتھ نکلے  گا جس میں فتنہ ہوگا،  اس پر ان کو جیل سے نکالا گیا اور بہت اعزار  واکرام کیا گیا۔ (فضائل درود شریف ص 198)

(2)     اور دوسرا واقعہ   ’’الجمعیۃ،  شیخ الاسلام نمبر‘‘  میں اس طرح مذکور ہے : مشہور عالم اور بزرگ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی مرحوم نے بیان فرمایا کہ ایک بار زیارتِ بیت ﷲ سے فراغت کے بعد دربارِ رسالت میں حاضری ہوئی تو مدینہ طیبہ کے دورانِ قیام مشائخِ وقت سے یہ تذکرہ سناکہ اِمسال روضہ اطہر سے عجیب کرامت کا ظہور ہوا ہے، ایک ہندی نوجوان نے جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر صلاۃ وسلام پڑھا تو دربارِ رسالت سے ”وعلیکم السلام یا ولدي“ کے پیارے الفاظ سے اس کو جواب ملا۔ اس واقعہ کو سن کر قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ مزید خوشی کا سبب یہ بھی تھا کہ یہ سعادت ہندی نوجوان کو نصیب ہوئی ہے۔ دل تڑپ اٹھا اور اس ہندی نوجوان کی جستجو شروع کی؛ تاکہ اس محبوبِ بارگاہِ رسالت کی زیارت سے مشرف ہوسکوں اور خود اس واقعہ کی بھی تصدیق کرلوں۔ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ ہندی نوجوان سید حبیب ﷲ مہاجر مدنی رحمہ ﷲ کا فرزندِ ارجمند ہے۔ گھر پہنچا ملاقات کی، تنہائی پاکر اپنی طلب وجستجو کا راز بتایا،  ابتدا میں خاموشی اختیار کی،  لیکن اصرار کے بعد کہا: ”بے شک جو آپ نے سنا وہ صحیح ہے۔“ یہ نوجوان تھے مولانا حسین احمد مدنی  رحمہ اللہ‘‘۔ (الجمعیۃ  شیخ ا لاسلام نمبرص۹۴)

  نیز  حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ  خان صاحب رحمہ اللہ نے درسِ ختمِ بخاری شریف جامع مسجد سورتی، رنگون، برما میں حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :  "میں نے پڑھا ہے اور اپنے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ آپ روضہٴ رسول اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم پر حاضر ہوئے، سلام پڑھا ’’الصلاة والسلام علیک یا رسول الله‘‘۔ روضہٴ اقدس سے رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:”وعلیک السلام یاولدي․“ (ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ)

لہذا اس طرح کے واقعات کا ظہور  کوئی اَن ہونی بات ہے، نہ ہی  ناممکن ہے،  جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں بے شمار معجزات عطا فرمائے، دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی بطورِ معجزہ کسی خرقِ عادت کا ظہور اہلِ سنت والجماعت کے ہاں باعثِ تعجب یا انکار نہیں ہے، بلکہ یہ محبت اور دلی شوق کی باتیں ہیں، اللّٰهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه!  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں