بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کی تاریح وفات سے متعلق راجح قول


سوال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وفات پر اقوال اور راجح قول کے متعلق راہ نمائی فرمائیں!

جواب

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مستند قول کے مطابق 9 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571عیسوی کو ہوئی، ( اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)۔ البتہ تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے، محدثین ومؤرخین کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بروز پیرہوئی ہے، اور وفات کا مہینہ ربیع  الاول کا تھا، البتہ  تاریخ کی تعیین کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں، جن میں زیادہ مشہور  قول ۱۲ ربیع الاول کا ہے۔ تاہم یہ قول محلِ اشکال ہے؛  اس لیے کہ اس پر سب کا اتفاق ہےکہ ۹ ذی الحجہ ؁       11ھ    یومِ عرفہ جمعہ کا دن تھا ،  اور اس کے بعد آپ تین ماہ بقید حیات رہے، ان تین ماہ میں چار  احتمالات ہیں:

1۔۔ تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر)  ۳۰ دن کے ہوں۔

2۔۔ دو مہینے ۳۰ دن کے ہوں، اور ایک مہینہ ۲۹ دن کا ہو ۔

3۔۔ دو مہینے ۲۹دن کے ہوں، اور ایک مہینہ ۳۰ دن کا ہو۔

4۔۔ تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر)  ۲۹ دن کے ہوں(اور یہی احتمال محققین کے نزدیک راجح ہے)۔

ان چاروں احتمالات میں سے کسی بھی احتمال سے آپ کی وفات ۱۲ ربیع الاول کو ثابت نہیں ہوتی، بلکہ محققین کے نزدیک آپ ﷺ کی تاریخ وفات ۲ ربیع الاول ہے، اگرچہ اس میں ۷اور ۸کے اقوال بھی ملتے ہیں، اور  بارہ ربیع الاول کا قول علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور اس کا مدار ابن کثیر رحمہ اللہ نے اختلافِ مطالع پر رکھا ہے کہ اختلافِ مطالع کی وجہ سے تاریخ میں فرق آیا ہے، تاہم یہ توجیہ قوی نہیں ہے،  راجح قول دو ربیع الاول کا ہی ہے،  فلکیات کے ماہرین بھی حسابی اصولوں کے مطابق یکم یا دو کو ہی درست قرار دیتے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بارہ تاریخ کی شہرت کا سبب یہ بتایا ہے کہ بعض کتب میں "ثاني شهر ربیع الأول" لکھا گیا تھا، جسے "ثاني عشر"پڑھ لیا گیا، یوں وفاتِ نبوی کے متعلق بارہ ربیع الاول کی شہرت ہوگئی، اسی 2 ربیع الاول کے قول کو علامہ سہیلی نے روضۃ الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں راجح قرار دیا ہے۔ بارہ ربیع الاول کے قول کی شہرت کی بنیاد  پر بعض اکابرین کی کتابوں میں بھی یہ درج ہوگیا ہے۔

’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘‘ میں ہے:

’’قال في جامع الأصول: كان ابتداء مرض النبي صلى الله عليه وسلم من صداع عرض له، وهو في بيت عائشة، ثم اشتد به، وهو في بيت ميمونة، ثم استأذن نساءه أن يمرض في بيت عائشة فأذن له، وكانت مدة مرضه اثنا عشر يوماً، وقيل: أربعة عشر يوماً، ومات يوم الاثنين ضحى من ربيع الأول في السنة الحادية عشرة من الهجرة، قيل: لليلتين خلتا منه، وقيل: لاثنتي عشرة خلت منه، وهو الأكثر انتهى، ورجح جمع من المحدثين الرواية الأولى لورود إشكال سيأتي على الرواية الثانية، لكن يلزم على هذا الترجيح أن يكون الشهور الثلاثة نواقص، وهو غير مضر، وذكر في الجامع أيضاً أنه صلى الله عليه وسلم ولد يوم الإثنين، وبعث نبياً يوم الإثنين، وخرج من مكة يوم الإثنين، ودخل المدينة يوم الإثنين، وقبض يوم الإثنين، قال الحنفي: وهنا سؤال مشهور على إشكال مسطور، وهو أن جمهور أرباب السير على أن وفاته صلى الله عليه وسلم وقعت في اليوم الثاني عشر، واتفق أئمة التفسير والحديث والسير على أن عرفة في تلك السنة يوم الجمعة، فيكون غرة ذي الحجة يوم الخميس فلا يمكن أن يكون يوم الاثنين الثاني عشر من ربيع الأول سواء كانت الشهور الثلاث الماضية يعني ذا الحجة والمحرم وصفر ثلاثين يوماً أو تسعاً وعشرين، أو بعض منها ثلاثين وبعض آخر منها تسعاً وعشرين، وحله أن يقال: يحتمل اختلاف أهل مكة والمدينة في رؤية هلال ذي الحجة بواسطة مانع من السحاب وغيره، أو بسبب اختلاف المطالع، فيكون غرة ذي الحجة عند أهل مكة يوم الخميس، وعند أهل المدينة يوم الجمعة، وكان وقوف عرفة واقعاً برؤية أهل مكة، ولما رجع إلى المدينة اعتبروا التاريخ برؤية أهل المدينة، وكان الشهور الثلاثة كوامل ...‘‘ الخ (باب ما جاء في وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم:۲/۲۰۲،ط: المطبعة الشرفية، مصر ، طبع على نفقة مصطفى البابي الحلبي وإخوته) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں