بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آٹا کے ادھار لینے کا حکم


سوال

ایک گھر والے دوسرے سے ایک برتن میں(جام)آٹا لیتے ہیں، اور دوسرے گھر والے اس کو بعد میں دیتے ہیں توکیا اس میں ادھار جائز ہے ؟ اگر جائز ہے تو اس کی کیا دلیل ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ آٹا، چینی اور اس طرح کی دیگر اشیاء جن کی لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتی ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہا جاتا ہے ان کی بیع ( خرید و فروخت ) میں تو یہ بات لازم ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا اور اگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو تو برابری ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں  ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے۔

لہذا اگرایک گھر والے ضرورت پڑنے پر  دوسرے گھر والوں سے آٹا، چینی وغیرہ بطور قرض لیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی مقدار لوٹا دیتے ہوں تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے؛ اس لیے اس میں ادھار  جائز ہے، یہ خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ جس طرح رقم بطورِ قرض لے کر کچھ عرصے بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطورِ قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹانا درست ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء بسااوقات اتنی کم ہوتی ہیں کہ کیل اوروزن کے تحت نہیں آتیں، اس وجہ سے بھی پڑوس میں ان کا لین دین جائز ہے۔فقط واللہ اعلم

فتاویٰ شامی میں ہے:

'' فصل في القرض: (هو) لغةً: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعاً: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه، وهو أخصر من قوله: (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه، (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس، (مثلي) خرج القيمي، (لآخر ليرد مثله) خرج نحو: وديعة وهبة.(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك ۔۔۔ (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عدداً (ولحم) وزناً وخبز وزناً وعدداً كما سيجيء ۔۔۔ (قوله: في مثلي) كالمكيل والموزون والمعدود المتقارب كالجوز والبيض''.  (کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض، ج:۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۷ ،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

'' ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون، والعددي المتقارب كالبيض، ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب، والعدديات المتفاوتة''۔(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج: ۳ ؍ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ط: رشیدیة ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں