بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آنکھیں وغیرہ عطیہ کرنے کا حکم


سوال

مرنے کے بعد یا زندگی میں جسم کا کوئی حصہ مثلاًً آنکھیں، گردہ یا جگر عطیہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی چیز کو ہبہ یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ چیز  مال ہو اور دینے والے کی ملک ہو۔چنانچہ ابن رشد ''بدایۃ المجتہد''  میں لکھتے ہیں:

'' أما الواهب فإنهم اتفقوا علی أنه تجوزهبته إذا کان مالکاً للموهوب صحیح الملک ... '' الخ۔ (بدایة المجتهد ونهایة المقتصد للشیخ الإمام ابن رشد القرطبي،کتاب الهبات:۵؍۳۵۷۔ ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

اور ہبہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس چیز کو ہبہ یا عطیہ کیا جا رہا ہو وہ مالِ متقوم ہو یعنی وہ مال شرعاً قیمتی ہو۔ چنانچہ  علامہ  کا سانی ""بدائع الصنائع"" میں تحریر فرماتے ہیں:

'' ومنها: أن یکون مالاً متقوماً فلاتجوزهبة مالیس بمال أصلاً کالحر والمیتة والدم وصید الحرم والخنزیر وغیرذلک. '' الخ (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الهبة، وأما مایرجع إلی الموهوب فأنواع:۵؍۱۶۹۔ ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)

چنانچہ جو چیز مالِ متقوم نہ ہو اس کا ہبہ و عطیہ کرنا جائز نہیں۔  

اسی طرح کسی شے کے بارے میں وصیت کرنے کے لیے بھی  یہ شرط ہے کہ جس شے  کی وصیت کی جائے وہ مالِ متقوم ہو  اور وہ چیز وصیت کرنے والے کی ملک ہو۔ چنانچہ ''عالمگیری'' میں ہے:

'' وشرطها کون المو صي أهلاً للتملیک والموصی له أهلاً للتملک والموصی به یعد الموصی مالاً قابلاً للتملیک''۔ ( الفتاوی الهندیة،کتاب الوصایا، الباب الأول في تفسیر…الخ۶؍۹۰۔ط: رشیدیه)

چوں کہ انسانی اعضاء مال نہیں ہیں اور نہ انسان اپنے اعضاء کے مالک ہیں؛ اس لیے اپنے اعضاء میں سے نہ کسی عضو کا ہبہ کرسکتا ہے نہ عطیہ دینے کی وصیت کر سکتا ہے۔انسان کو اپنا جسم استعمال کرنے کا حق ہے، یعنی اس سے انتفاع حاصل کر سکتا ہے، لیکن اپنے  اعضاء کا مالک نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو نہ فروخت کر سکتا ہے نہ کسی کو عطیہ یا ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے، جس طرح دوسرے کے جسم واعضاء کو نقصان پہنچانا حرام ہے خود اپنے جسم واعضاء کو نقصان پہچانا بھی گناہ ہے ۔ ''فتح الباری'' میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

''ویوخذ منه أن جنایة الإنسان علی نفسه کجنایته علی غیره في الإثم؛ لأن نفسه لیست ملکاً له مطلقاً بل هي للّٰه تعالی فلا یتصرف فیها إلا بما أذن له فیه''۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب من حلف بملۃ سوی ملۃ الاسلام،۱۱؍۵۳۹۔ رقم الحدیث:۶۶۵۲۔ ط:رئاسة إدارات البحوث العلمیة)

حاصل یہ کہ مذکورہ فقہی کتابوں اور حوالوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ  ہبہ اور وصیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان جس چیز کا عطیہ کرنا چاہتا ہو  اس چیز کا مالک ہو اور انسان چوں کہ اپنے اعضاء کا خود مالک نہیں ہے؛ اس لیے نہ تو اپنی زندگی میں اپنے اعضاء کا عطیہ کر سکتا  ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد  اپنے اعضاء کسی کو دینے کی وصیت کرنا جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں