بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن گیم کھیل کر پیسے کمانے کا حکم


سوال

اسٹریم کار کے نام سے ایک گیم ہے، اس میں لوگ آن لائن کاروبار کر رہے ہیں یعنی وہ ٹارگٹ دیتے ہیں ایک مہینے کا 15دن ویلڈ روزانہ ایک گھنٹے کے حساب سے اور 60 گھنٹے مہینے میں اور 10دس لاکھ گفٹنگ اور مہینے کی سیلری 16000 یہ کیسا ہے؟

 اس  میں زیادہ تر لڑکیاں ہے جو آن لائن ہوتی ہیں وہ لڑکوں کے ساتھ گپ شپ کرتی ہیں اور جو گفٹنگ ہے وہ یعنی اپنے پیسوں سے کوئنس خرید کر خود کو کرو یا گیم کھیل کر وہ کوئنس بڑھائیں پھر خود کو بھی ٹارگٹ کرو اور اپنے دوستوں کو بھی اس طرح جو آپ کا ٹارگٹ ہوگا، پھر مہینے کے بعد سیلری آتی ہے جتنا ٹارگٹ اتنی سیلری۔

جواب

مذکورہ گیم میں کیا ٹارگٹ ملتا ہے؟ روزانہ ایک گھنٹےکا جو وقت طے ہے اس میں کیا کرنا پڑتا ہے یعنی عمل کیا ہے؟  گفٹنگ سے کیا مراد ہے؟

مذکورہ  وضاحت خاص اس معاملہ کی نوعیت جانچنے کے لیے ہیں، ورنہ اصولی طور پر  یہ جواب ہے:

  کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر ہوں تو وہ جائز ہی نہیں ہوگا۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

مذکورہ گیم محض لہو لعب  ہے، پھر اس میں جان دار  کی تصاویر، نامحروں سے بات چیت گپ شپ وغیرہ قباحتیں الگ پائی جاتی ہیں،  جو کہ ناجائز اور حرام ہیں،  نیز اس میں کوئینس خریدے جاتے ہیں جب کہ  خرید و فروخت  کے جائز ہونے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  مبیع (جس  چیز کو بیچا جارہا ہے) اور ثمن( جس کے ذریعے  کسی چیز کو خریدا جارہا ہے)   خارج میں مادی شکل میں  موجود ہوں، اور وہ مالِ متقوم ہو، محض فرضی چیز نہ ہوں، لہذا جس چیز کا خارج میں وجود نہ ہو اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی جامد اثاثے ہوں  تو شرعاً ایسی  چیزوں کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، لہذا گیم کے کوئنس کی خریدوفروخت بھی جائز نہیں ہے۔

اور اگر گیم سے مقصد اشتہارات پر کلک کرکے پیسے کمانا ہوتویہ بھی ناجائز ہے، اس لیے کہ:

1۔۔ اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2۔۔  جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں۔لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3۔۔ ان اشتہارات میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

       شریعت میں بلا محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے،لہذا اس طرح کے طریقوں سے پیسے کمانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں