بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آل سید کا نسب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہونے کی حکمت


سوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں، لیکن ان کی نسل صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے کیوں اور کیسے چلی ؟ برائے مہربانی اس کا تفصیلی جواب چاہیے؛ تاکہ پوری بات واضح ہو۔

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں تو چار تھیں لیکننسل صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلی، اس کے علاوہ کسی اور سے آگے نہیں بڑھی کیونکہ دیگر صاحبزادیوں کی اولاد نہ ہوئی اور اگر اولاد ہوئی تو بچپن میں انتقال ہو گیا یا اُن کی اولاد نہ ہوئی۔

اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ  آپ ﷺ کی چار لڑکیاں ہوئیں، اور اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ اُن میں سب سے بڑی حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ہیں، پھرحضرت رُقَیَّہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ، پھرحضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ،پھر حضرت سیِّدہ فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ؛ لڑکوں میں البتہ بہت اِختِلاف ہے لیکن اکثرکی تحقیق تین لڑکوں کی ہے جن کے نام یہ ہیں حضرت قاسم، حضرت عبداللہ،حضرت ابراہیم ۔ اورحضورﷺکی ساری اولاد حضرت ابراہیم   کے سِوا حضرت خدیجہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ہی سے پیدا ہوئی۔

1۔ حضرت قاسم  نے بچپن ہی میں انتقال فرمایا، دو سال کی عمر اکثر نے لکھی ہے، اوربعضوں نے اِس سے کم یازیادہ بھی لکھی ہے۔ 

2۔ حضرت عبداللہ :دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ  جو نُبوَّت کے بعد پیدا ہوئے، اوراِسی وجہ سے اِن کا نام ’’طَیِّب‘‘ اور’’طاہر‘‘ بھی پڑا، اوربچپن ہی میں اِنتقال ہوا۔

حضرت ابراہیم : تیسرے صاحبزادے حضرت ابراہیم تھے جوہجرت کے بعدمدینہ طیبہ میں بِالاِتِّفاق ذی الحجہ۸ھ؁ میں پیدا ہوئے،لیکن ان کی عمر بھی کچھ زیادہ نہ ہوئی اور سولہ مہینے کی عمر میں اِنہوں  نے بھی۱۰؍ ربیع الاول۱۰ھ؁ میں انتقال فرمایا، بعضوں نے اَٹھارہ مہینے کی عمربتلائی ہے۔

حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا : صاحبزادیوں میں سب سے بڑی حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ہیں، حضورِ اقدس ﷺ کے نکاح سے پانچ برس بعد-جب کہ آپ کی عمر شریف تیس برس کی تھی- پیداہوئیں، اوراپنے والدین کی آغوش میں جوان ہوئیں، مسلمان ہوئیں، اور اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن رَبیع سے نکاح ہوا، غزوۂ بدر کے بعد ہجرت کی جس میں مُشرکین کی ناپاک حرکتوں سے زخمی ہوئیں  اور اِسی بیماری کا سلسلہ اخیرتک چلتا رہا، یہاں تک کہ۸ھ کے شروع میں انتقال فرمایا۔اِن کے خاوند بھی۶ھ یا۷ھ میں مسلمان ہوکر مدینۂ مُنوَّرہ پہنچ گئے تھے، اوراِن ہی کے نکاح میں رہِیں، اِن سے دوبچے ہوئے: ایک لڑکا، ایک لڑکی؛ لڑکے کانام حضرت علی  تھا، جنھوں نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بلوغ کے قریب حضور ﷺکی زندگی ہی میں انتقال فرمایا، فتحِ مکہ میں حضور ﷺ کے ساتھ اونٹنی پر جوسوارتھے وہ یہی حضرت علی تھے۔ لڑکی کانام حضرت اُمامہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا تھا، جن کے مُتعلِّق حدیث کی کتابوں میں کثرت سے قصہ آتا ہے کہ: جب حضورﷺ نماز میں سجدہ کرتے تو یہ کمر پرسوار ہوجاتِیں، یہ حضورﷺ کے بعدتک زندہ رہیں، حضرت سیدہ فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کے وِصال کے بعد -جو اِن کی خالہ تھِیں- حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہ ٗنے اِن سے نکاح کیا، اوراِن کے وِصال کے بعد مُغِیرہ بن نَوفَل  سے نکاح ہوا، حضرت علی کی کوئی اولاد اِن سے نہیں ہوئی؛ البتہ مُغِیرہ  سے بعضوں نے ایک لڑکا یحییٰ لکھاہے، اوربعضوں نے انکار کیا ہے، بہرحال ان کا  تفصیلی تذکرہ  کتبِ تاریخ میں نہیں ملتا، حضرت امامہ رضی اللہ عنہا  کاانتقال۵۰ھ؁ میں ہوا۔

5۔ حضرت رقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا:حضورﷺکی دوسری صاحبزادی حضرت رُقَیَّہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا تھیں، جو اپنی بہن حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے تین برس بعدپیداہوئیں، جب کہ حضورﷺ کی عمر شریف تینتیس (۳۳)برس کی تھی،حضورﷺ کے چچا ابولہب کے بیٹے عُتبہ سے نکاح ہواتھا لیکن انہوں نے اپنے اسلام قبول کرنے سے قبل ان کو طلاق دے دی تھی،   پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا،  مدینہ منورہ  ہجرت کے بعد جب حضورﷺ بدر کی لڑائی میں تشریف لے جانے لگے تو حضرت رقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا بیمار تھِیں؛ اِسی لیے حضورﷺ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اِن کی تیِمار داری کے واسطے مدینہ چھوڑ گئے، بدر کی فتح کی خوش خبری مدینۂ طیبہ میں اُس وقت پہنچی جب یہ حضرات حضرت رُقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کو دفن کرکے آرہے تھے، اِسی وجہ سے حضورِ اقدس ﷺاُن کے دفن میں شرکت نہ فرماسکے۔ حضرت رقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کے پہلے خاوند کے یہاں رُخصتی بھی نہیں ہوسکی تو اولاد کاکیاذکر! البتہ حضرت عثمان سے ایک صاحبزادہ -جن کا نام عبداللہ تھا-حَبشہ میں پیداہوئے تھے، جو اپنی والدہ کے انتقال کے بعد تک زندہ رہے، اور چھ سال کی عمر میں۴ھ؁ میں انتقال فرمایا، اوربعض نے لکھا ہے کہ: اپنی والدہ سے ایک سال قبل انتقال کیا، اِن کے علاوہ کوئی اَور اولاد حضرت رُقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے نہیں ہوئی۔

6۔ حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا :حضورِ اقدس ﷺکی تیسری صاحبزادی حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا تھِیں، ان کا نکاح اوَّل عُتَیبہ بن ابی لہب سے ہوا؛ مگررخصتی نہیں ہوئی تھی کہ سورۂ تبَّت کے نازل ہونے پر طلاق کی نوبت آئی ۔

حضرت رُقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کے انتقال کے بعد ربیع الاوَّل۳ھ میں حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کانکاح بھی حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ سے ہوا، حضور ﷺ کاارشاد ہے کہ: مَیں نے اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کانکاح آسمانی وحی کے حکم سے عثمان  رضی اللہ عنہ سے کیا۔ بعض روایات میں حضرت رقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا دونوں کے متعلِّق یہی ارشادفرمایا۔ پہلے خاوند کے یہاں تورخصتی بھی نہیں ہوئی تھی، اولاد کوئی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی نہیں ہوئی، اورشعبان۹ھ میں انتقال فرمایا۔

7۔ حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا :حضورﷺکی چوتھی صاحبزادی، جَنَّتی عورتوں کی سردار، حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا - جو عمر میں اکثر مُؤرِّخین کے نزدیک سب سے چھوٹی ہیں-نُبوَّت کے ایک سال بعد -جب کہ حضورﷺکی عمر شریف اِکتالیس برس تھی- پیدا ہوئیں، اوربعض نے نبوت سے پانچ سال پہلے پینتیس سال کی عمر میں لکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ: اِن کانام فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا اِلہام یا وحی سے رکھاگیا، ’’فَطَمٌ‘‘ کے معنیٰ روکنے کے ہیں، یعنی یہ جہنَّم کی آگ سے محفوظ ہیں،  ۲ھ؁ میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ سے نکاح ہوا، اور نکاح سے سات ماہ اورپندرہ دن بعد رُخصتی ہوئی،   نبی اکرم ﷺکے وِصال کے چھ مہینے بعد حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا بیمار ہوئیں، اور ایک روزخادمہ سے فرمایا کہ: مَیں غسل کروں گی پانی رکھ دو،غسل فرمایا،نئے کپڑے پہنے، پھر فرمایا کہ: میرا بِسترہ گھر کے بیچ میں کردو، اُس پر تشریف لے گئیں، اور قبلہ رُخ لیٹ کر داہنا ہاتھ رُخسار کے نیچے رکھا اور فرمایا کہ: ’’بس اب مَیں مرتی ہوں‘‘، یہ فرماکر وِصال فرمایا۔

حضورِ اکرم ﷺکی اولاد کاسلسلہ اِنھِیں سے چلا، اور إِنْ شَاءَ اللہ قِیامت تک چلتارہے گا۔ اِن کی چھ اولاد: تین لڑکے تین لڑکیاں ہوئیں:

سب سے اوَّل حضرت حسَن رضی اللہ عنہ نکاح سے دوسرے سال میں پیداہوئے، پھرحضرت حُسین  رضی اللہ عنہ تیسرے سال میں یعنی۴ھ؁ میں، پھر حضرت مُحسَّن  (یہ ’’سین‘‘ کی تشدید کے ساتھ ہے)پیدا ہوئے،جن کاانتقال بچپن ہی میں ہوگیا۔

صاحبزادیوں میں سے حضرت رُقیہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کاانتقال بچپن ہی میں ہوگیاتھا، اِسی وجہ سے بعض مُؤرِّخین نے اِن کو لکھا بھی نہیں۔ دوسری صاحبزادی حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کاپہلانکاح  امیر المؤمنین حضرت عمر  بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوا، جن سے ایک صاحبزادے زیداورایک صاحبزادی رقیہ  پیدا ہوئیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وِصال کے بعد اُمِّ کلثوم کانکاح عَون بن جعفرسے ہوا، اِن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، اِن کے انتقال کے بعد اِن کے بھائی محمدبن جعفر سے ہوا، اِن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں انتقال کرگئی، اِن کے انتقال کے بعد اِن کے تیسرے بھائی عبداللہ بن جعفرسے ہوا، اِن سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی، اوراِنھیں کے نکاح میں حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کا انتقال ہوا، اور اُسی دن اِن کے صاحبزادے زید  کابھی انتقال ہوا، دونوں جنازے ساتھ ہی اُٹھے، اور کوئی سلسلہ اولاد کا اِن سے نہیں چلا۔یہ تینوں بھائی  عبداللہ، عون اورمحمد  حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھتیجے اورجعفر طَیَّاررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں۔ حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا کی تیسری صاحبزادی حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا تھیں، جن کانکاح عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ہوا، اوردوصاحبزادے عبداللہ اور عون پیدا ہوئے، اور اِن کے ہی نکاح میں انتقال فرمایا،اِن کے انتقال کے بعد عبداللہ بن جعفر کا نکاح اِن کی ہمشیرہ حضرت اُمِّ کلثوم رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے ہواتھا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ اولاد حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے ہے؛ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری بیویوں سے -جوبعد میں ہوئیِں-اَور بھی اولاد ہے، مُؤرِّخین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد بتیس (۳۲)لکھی ہے، جن میں سولہ لڑکے اورسولہ لڑکیاں، اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ  کے پندرہ لڑکے آٹھ لڑکیاں، اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  کے چھ لڑکے تین لڑکیاں۔ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَأَرْضَاہُمْ أَجْمَعِیْنَ، وَجَعَلَنَا بِہَدْیِہِمْ مُتَّبِعِیْنَ۔

خلاصہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پھیلنا  استثنائی صورت ہے، جیسا کہ حاکم اور طبرانی کی روایت میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

’’ہر عورت کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے، سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بچوں کے کہ ان کا ولی اور عصبہ میں ہوں۔‘‘

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ گو نسب باپ کی طرف سے ثابت ہوتا ہے، لیکن بنی فاطمہ اس سے مستثنی ہیں۔ حضرت حسن او ر حسین رضی اللہ عنہما کا نسب فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے واسطے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے اور یہ صرف حضرت فاطمہ کے سیدۃ النساء ہونے اور ان کی عنایت، شرافت و عظمت کی وجہ سے ہوا ہے جو حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی خصوصیت ہے۔ آئندہ کسی عورت کی جانب سے خواہ وہ سید ہی کیوں نہ ہو نسب ثابت نہ ہوگا، بلکہ باپ کا اعتبار ہوگا۔ باپ اگر فاروقی ہو تو بچہ بھی فاروقی اور باپ اگر صدیقی ہو تو بچہ بھی صدیقی ہوگا۔

(نسب کے ثبوت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے عصبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آلِ نبی ہونے کی نسبت ان کی طرف ہوگی۔ البتہ والد کی جگہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہی نام ہوگا کیوں  کہ وہ والد ہیں۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی دوسری بیویوں سے ہونے والی اولاد کی نسب سید ہونے کی طرف نہیں ہوگی، بلکہ وہ علوی کہلائیں گے۔) (ماخوذ از فتاوی دار العلوم دیوبند: ۱۱/ ۴۹)

المعجم الكبير للطبراني:

"حدثنا محمد بن زكريا الغلابي، حدثنا بشر بن مهران، ثنا شريك بن عبد الله، عن شبيب بن غرقدة، عن المستظل بن حصين، عن عمر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ’’كل بني أنثى فإن عصبتهم لأبيهم، ما خلا ولد فاطمة فإني أنا عصبتهم وأنا أبوهم‘‘. 

حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا جرير، عن شيبة بن نعامة، عن فاطمة بنت حسين، عن فاطمة الكبرى قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’كل بني أم ينتمون إلى عصبة إلا ولد فاطمة، فأنا وليهم وأنا عصبتهم‘‘. 

(بقية أخبار الحسن بن علي رضي الله عنهما: ۳/ ۴۴، ط: مكتبة ابن تيمية، القاهرة)

الجامع الصغیر للیسوطی:

"كل بني أنثى فإن عصبتهم لأبيهم ، ما خلا ولد فاطمة، فإني أنا صبتهم وأنا أبوهم".

 (۳/ ۲۷۷، ط: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں