بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آفس کے انٹرنیٹ کا ذاتی استعمال / ملازمت کے فارغ اوقات میں کیا کیا جائے؟


سوال

1۔۔ آفس کا انٹرنیٹ اور کمپیوٹر اپنے ذاتی استعمال میں لانا کیسا ہے؟  اور اس کی کیا حدود اور گنجائش ہے؟

2۔۔  آفس میں کام بہت کم ہیں اور ڈیوٹی کے  گھنٹے  زیادہ  ہیں فارغ اوقات میں کیا کیا جاۓ؟

جواب

1۔۔ اگر آفس انتظامیہ کی طرف سے صراحتاً یا عرفاً اجازت ہو کہ انہوں نے اپنے ملازمین کو جو انٹرنیٹ کی سہولت دی ہے، اسے وہ ہر طرح کی جائز  ضرورت میں استعمال کرسکتے ہیں خواہ آفس کی ہو یا اس کے علاوہ، تو اس صورت میں آپ کے لیے اپنی جائز ضرورت کے لیے آفس کا انٹرنیٹ استعمال کرنا جائز ہوگا، اور ان کی طرف سے صراحتاً اس کی ممانعت ہو کہ اس نیٹ کو صرف آفس کی ضرورت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو پھر ذاتی ضرورت کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

2۔۔  کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور اجیر خاص ملازمت کے اوقات میں  حاضر رہنے سے تنخواہ کا مستحق ہوتا ہے، اور ملازمت کے اوقات میں ملازم کے لیے وہی کا کام کرنا ضروری ہوتا ہے  جو اس کے سپرد کیا گیا ہے،  البتہ اگر کام (واقعۃً) مکمل ہوگیا ہو اور وقت بالکل فارغ ہو ، اور آفس کی طرف سے دوسری کسی چیز میں مشغول ہونے  پر پابندی نہ ہو  تو فارغ اوقات میں قرآنِ کریم کی تلاوت، یا مطالعہ، اور ذکر اذکار  وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔

     فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، وعليه الفتوى". (6/70،  کتاب الاجارۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں