بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آفس کا کام کروا کر آفس سے بطور کمیشن زائد رقم وصول کرنا


سوال

میں جس آفس میں کام کرتا ہوں، وہاں تمام ورکرز  آفس کا کوئی بھی مینٹینس کا کام اپنے بندوں سے کرواتے ہیں، اس پر کمیشن لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

دوسری بات یہ کہ اگر کوئی مزدور سے آفس کا کام اپنے پیسوں سے کروالے، پھر بعد میں آفس سے بل پاس کروائے تو اس صورت میں کمیشن لینے کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟

جواب

مارکیٹ میں جو افراد فری لانس مختلف افراد یا کمپنیوں کا مال کسی اور کو دلواتے یا خریدواتے ہیں اور درمیان میں اپنامقررہ یا معروف کمیشن وصول کرتے ہیں تو ان کا یہ کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز ہوتا ہے۔ البتہ وہ افراد جو کسی کمپنی میں ملازم ہوں اور کمپنی کا مال بیچنے یا کمپنی کے لیے مال خریدنے پر مامور ہوں اور اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں، یا کمپنی کے کہنے پر مینٹینس کے کام کی ذمہ داری ادا کرتے ہوں ان کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، نیز وہ شخص جس کو کسی نے مال خریدنے کے حوالہ سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد کے واؤچر بنوا کر اپنے مؤکل (اصل خریدار) سے بطور کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں، نیز اگر کسی شخص نے کمپنی کی جانب سے پیشگی اجازت کے بغیر ہی کوئی کام اپنے پیسوں سے کرادیا، تو از روئے شرع یہ متبرع (بطورِ احسان نیکی کرنے والا) ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ جو کام اجازت کے بغیر کرایا وہ اس کی طرف سے کمپنی پر احسان ہوگا، اپنے احسان کی قیمت وصول کرنا درست نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کمپنی کے مختار ذمہ داران کی پیشگی اجازت کے بغیر ملازمین کے لیے کمیشن وصول کرنا جائزنہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘ الخ ( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً: ’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں