بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آسمانی کتابوں کو کلام اللہ نہ کہنے والے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص تورات ، زبور اور انجیل کو اللہ پاک کی کتابیں مانے، کلام اللہ نہ کہے، اور توجیہ یہ بیان کرے کہ اللہ پاک نے یہ کتاب کی شکل میں اتاریں ، کلام نہیں فرمایا ، اس لیے یہ اللہ کی کتابیں تو ہیں، کلام اللہ نہیں، تو ایسا کہنا کیسا ہے؟  کیا ایسا کہنے سے آدمی ضروریاتِ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہوجائے گا؟  جواب قرآن و حدیث اور فقہاءِ کرام کے اقوال کی روشنی میں عنایت فرمائیں!

جواب

انبیاءِ کرام علیہم السلام پر وحی نازل ہونے کی مختلف صورتیں تھیں، کبھی تو فرشتہ وحی لے کر آتا، کبھی لکھی ہوئی کتاب مل جاتی،کبھی اللہ تعالی بغیر کسی واسطے کے خود کلام فرماتے، الغرض انبیاءِ کرام علیہم السلام پر وحی جس صورت میں بھی آئے وہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کا نازل کردہ قانون و حکم ہے، چناں چہ جس طرح قرآن کتاب اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ کلام اللہ بھی ہے، اسی طرح دیگر آسمانی کتابیں کتاب اللہ بھی ہیں کلام اللہ بھی ہیں، قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں کی کتاب اللہ میں تحریف کا ذکر یوں فرمایاہے:

﴿ اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْكَانَ فَرِيْق مِّنْهُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْ بَعْدِ مَاعَقَلُوْهُ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرة:75)

ترجمہ: ’’ کیا تم (مسلمان) امید رکھتے ہو کہ یہ (یہود) ایمان لے آئیں گے تم (یعنی تمہارے دین) پر! حال آں کہ ان میں ایک فریق (گروہ) اللہ کا کلام سنتاتھا پھر اسے سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کرتاتھا باوجود یہ کہ وہ جانتے تھے‘‘۔

مذکورہ آیت میں تورات کو کلام اللہ کہاگیا ہے، لہٰذا دیگر آسمانی کتابوں کو بھی کلام اللہ کہنا درست ہے۔اگر کوئی کہے کہ کلام اللہ کااطلاق اس پر صحیح نہیں تو یہ محض اصطلاحات کا اختلاف ہے نہ کہ اس بات کا کہ دیگر آسمانی کتب منزل من اللہ تھی یا نہیں، لہذا کلام اللہ کا اطلا ق نہ کرنے سے کوئی آدمی کافر نہیں ہوگا، کسی کو کافر قرار دینا بہت بھاری حکم ہے جو بلا دلیل کبھی کسی پر نہیں لگایا جاسکتا، بلکہ ایسی جسارت کرنا بذاتِ خود جرم ہے۔

"وفي شرح الطحطاویة: والحق أن التوراة والإنجیل والزبور والقرآن من کلام الله حقیقةً. وفیه أیضًا: فإن عبر بالعربیة فهو قرآن وإن عُبر بالعبرانیة فهو توراة، فاختلف العبارات لا الکلام". (ص ۱۲۴، ط المملکة) 

 

باقی جن اہلِ علم نے مذکورہ بات کہی ہے، ان کے ہاں اس کی بنیاد علمِ کلام کے مسئلہ کلامِ نفسی اور کلامِ لفظی کی بحث ہے، عوام الناس کے سامنے ان گہری مباحث کا چھیڑنا مناسب نہیں ہے۔ اہلِ علم کتبِ علم الکلام کی مراجعت فرمائیں! فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں