بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آزاد ہو کہنے کے بعد دوبارہ طلاقِ بائن اور صریح کا حکم


سوال

میری ایک عزیزہ کو اس کے شوہر نے بولا: اگر آج رات تک تم نے اپنا موبائل گھر نہ دیا تو تم میری طرف سے آزاد ہو گی،  اور  جب تک زندہ رہوں گا اپنی اولاد کا خرچہ دیتا رہوں گا۔ اور اُس کی بیوی نے موبائل نہیں دیا،  کیا اس بات پر طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی؟ اور شوہر کی نیت ہونا لازمی ہے ؟ اور نکاح اُسی وقت ٹوٹ جائے گا؟اور بعد میں دی گئی طلاق واقع ہو گی، بعد میں ایک دن ایک دفعہ دی، پھر اگلے دن انتہائی غصہ میں 6سے 7 دفعہ،  آزاد والی  بات کے  3 ماہ بعد لفظِ طلاق بول کر طلاق دی۔  اس سب عرصہ میں خاتون پہلے سے حاملہ تھی  اور کتنی طلاقیں واقع ہو ں گی؟  اور رجوع کیسے ہو سکتا ہے؟ اب  بچہ ہو گیا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں پہلی مرتبہ آزاد کا لفظ بولنے سے ایک صریح بائن طلاق واقع ہوگئی،  نکاح ٹوٹ گیا، نیت کی ضرورت نہیں، دوسری بار  میں آپ نے وضاحت سے نہیں لکھا ہے  کہ  چھ سے سات دفعہ طلاق کا لفظ بولا یا آزاد کا لفظ کہا؟  چنانچہ اگر آزاد کا لفظ چھ سات دفعہ کہا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،  اس لیے کہ بائن کے بعد دوسری بائن طلاق واقع نہیں ہوسکتی ، اور تیسری بار لفظ طلاق کے ساتھ طلاق دینے سے  طلاق واقع ہوگی کیوں کہ (بقول سائل مطلقہ دریں اثناء حاملہ تھیں؛  لہذا عدت ختم ہونے /وضع حمل سے پہلے طلاق واقع ہوئی اور) بائن کے بعد صریح طلاق عدت کے اندر واقع ہوجاتی ہے ۔

 تیسری بار طلاق کے عدد کی وضاحت آپ نے نہیں کی؛  لہذا اگر ایک  طلاق دی ہے تو کل دو طلاق  ہوئیں دوبارہ  نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں،  شوہر کو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا اور اگر ایک سے زائد بار طلاق دی ہے تو تین طلاق کے ساتھ عورت حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ شوہر پر حرام ہوچکی ہے، دوبارہ نکاح یا رجوع کی صورت باقی نہیں رہی ، اسی طرح اگر  چھ  سے  سات دفعہ میں آزاد کے بجائے طلاق کا لفظ بولا تو  بھی اس سے تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 247):

"(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 272):

"أجمع العلماء على أن الصريح يلحق بالصريح ما دامت في العدة، فكذلك البائن يلحق بالصريح، والصريح يلحق بالبائن ما دامت في العدة عندنا؛ لأن بعد الإبانة محلية الطلاق باقية ما دامت العدة باقية؛ لأن محلية الطلاق بقيام العقد وبعد الإبانة العقد باق ما بقيت العدة؛ بدليل بقاء الأثر المختص به وهو المنع عن الخروج والتزين والتزوج بزوج آخر.
والبائن لايلحق البائن إلا أن يتقدم سببه بأن قال لها: إن دخلت الدار، فأنت بائن ونوى بها الطلاق ثم أبانها ثم دخلت الدار وهي في العدة وقعت عليها تطليقة بالشرط عند علمائنا الثلاثة رحمهم الله خلافاً لزفر رحمه الله."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں